بلوچستان میں بم دھماکے، دہشتگردی ، ٹارگٹ کلنگ جاری

ناکے ، تلاشی اور ایف سے گشت․․․․․․․․ صوبے میں موجود ”را“ کے سہولت کاروں تک رسائی کب ہوگی؟

جمعہ 27 اکتوبر 2017

Balochistan Me Bum Dhamaky Dehshat Gardi
عدن جی:
بلوچستان میں امن وامان ہوجانے کی باتیں سچ ہیں ؟ اس کا جواب صوبائی درالحکومت کوئٹہ سمیٹ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات ہی دے سکتے ہیں۔ جن میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ زیادہ ہے۔ کوئٹہ کے علاقے نیو سریاب درخشاں ریلوے پھاٹک کے قریب ایلیٹ فورس کے ٹرک کو خودکش بمبار نے 100 کلو گرام بارود سے بھری گاڑی سے اڑادیا جس میں 7 اہلکاروں سمیت 8 افراد شہید اور 30 زخمی ہوگئے جبکہ ایک شہری بھی شہید ہوگیا او کچھ ہی دیربعد کوئٹہ کے ایک علاقے قمبرانی روڈ پر دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے سی ٹی ڈی انسپکٹر کو نشانہ بنایا۔

دھماکے اور فائرنگ کے واقعات نے وادی کوئٹہ کو تو لہو لہان کردیا مگر شہر میں خوف وہراس اور عدم تحفظ کے احساس نے شہریوں کو حد درجہ پریشان کردیا۔

(جاری ہے)

بعد میں پولیس نے مشرقی بائی پاس میں آپریشن کے دوران 3 دہشتگرد ہلاک ہوگئے اور ان کے قبضے سے بھاری اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ مگر بعد میں کوئٹہ میں خود کش دھماکہ کے بعد زمین لرز اٹھی اور فضا میں بارودی مواد کے باعث دھوئیں کے بادل چھا گئے اور زخمیوں کی چیخ وپکار ایمبولینس کے شور نے ماحول کو عجیب خوف زدہ کررکھا تھا ۔

گاڑیوں کو نقصان پہنچا تاہم دھماکے کے فوراََ بعد ریسکیو اہلکار، ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری پہنچ گئی اور نعشوں اور زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں پہنچایا گیا۔ صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور ڈی جی کوئٹہ بھی وقوعہ پر پہنچ گئے۔ بعد میں شہداء کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور ان کی میتیں آبائی علاقوں میں روانہ کردی گئیں۔ جس میں کور کمانڈر کوئٹہ سمیت اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے شرکت کی ، مذمت کے بیانات بھی آئے، دشمن کا آخری دم تک پیچھا کرنے کی بہت ساری سیاسی باتیں بھی ہوئی۔

صدر، وزیراعظم،وزیراعلیٰ سمیت اہم سیاسی شخصیت کے مذمتی بیانات بھی آئے ۔ بھارت اور اس کے ایجنٹوں پر الزام لگائے گئے مگر صوبائی کا بینہ اپنے کاموں میں مصروف رہی۔ اگلے ہی دن مستونگ اور گوادر میں بھی بم حملوں نے 35 افراد کو زخمی اور کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری نے کہا کہ دہشت گردوں کا ہر جگہ پیچھا کررہے ہیں۔

صوبے میں امن کو یقینی بنائیں گے۔ آخری دہشت گرد تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ لاہور سے آنے والی فرانزک ٹیم نے وقوعہ کا معائنہ کیا اور جلد رپورٹ تیار کرنے کی یقین دہانی کروائی، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں ”را“ کے سہولت کار بھی موجود ہیں اور ایجنٹ بھی۔ آخر ان تک رسائی کب ہوگی؟ یہ واقعات جو پے درپے ہورہے ہیں ان کے ہونے کے فوراََ بعد تو سب ادارے خاصے متحرک ہوجاتے ہیں مگر بعد میں خاموشی چھا جاتی ہے ۔

ایک سوال بہت اہم ہے کہ کوئٹہ میں خصوصی طور پر جگہ جگہ ناکے، تلاشی، ایف سی گشت مورچے دیکھ کر تویوں لگتا ہے کہ یہاں چڑیا کا بچہ بھی چاقو لے کر نہیں گزرسکتا تو 100 کلو باردو لے کر خودکش کیسے کوئٹہ میں داخل ہوگیا اور اس کی درست معلومات کا کون ذمہ دار ہے کہ گنجائش سے زائد یعنی35 اہلکاروں کے لے کر عین اس وقت ٹرک یہاں سے گزرے گا جہاں خودکش نے دھماکہ کرنا ہے۔

یہ باتیں ایک عام شہری پوچھتا ہے مگر سیاست دانوں یا انتظامیہ عسکری ذرائع کے پاس جواب نہیں ہے۔ یقینا کلبھوشن را کے ایجنٹ کے سہولت موجود ہیں ۔ شاید کالعدم تنظیموں کے سلسلے ابھی تک موجود ہیں کہ میڈیا کا بلوچستان میں کام کرنا اتنا مشکل ہوچکا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کالعدم تنظیموں کے ٹیلی فون پر آنے والی دھکمیاں ہیں کہ ہمارے بیانات جیسا ہم چاہتے ہیں ویسا چھا پو ورنہ آپ ہماری ہٹ لسٹ پر ہو اور ڈپٹی کمشنر کا دباؤ ہے کہ اخبارات میں کالعدم تنظیموں کے بیانات ہرگز نہیں چھپ سکتے۔

اب صحافی کو جان کے لالے پڑے ہیں ، وہ کیا کرے۔ مگر یہ سب معاملات یہ ضرور ثابت کرتے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک ابھی تک محفوظ ہے۔ ہم فراریوں کے ہتھیار ڈالنے کی خبریں دیکھتے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کے کمانڈروں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں ، اب وہ پرامن شہری بن کر رہیں گے اور صوبائی حکومت ان کی مالی امداد بھی کررہی ہے ۔ مگر کوئٹہ کے حالات وواقعات دہشت گردی کا سماں باندھ رہے ہیں۔

صرف بھارت یا افغانستان کا نام لینا کافی نہیں ہوگا کیونکہ ایسا کب تک چلے گا۔ بلوچستان کی بدامنی کے ساتھ کرپشن کی مثالیں بہت مشہور ہیں اور ملک بھر میں بلوچستان کی کرپشن کی داستانیں اس صوبے کی پسماندگی کاباعث قراردی جاتی ہیں۔ اب ضلع لسبیلہ کے DAM سٹی حفاظتی بند کے 4 کروڑ 27 لاکھ کے منصوبے میں ہونے والی خود برد میں ٹھیکیدار آغا فیصل اور احمد پٹھان کی عدالت نے ضمانت کی درخواست مسترد کردی اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ 4 کروڑ 27 لاکھ کی اس خرد برد کیس کا فیصلہ درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد گرفتاری کی صورت میں سامنے آیا اور مشتاق رئیسانی ، لانگو سمیت صوبے میں گندم کی سمگلنگ کے سب واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اداروں پر حکومت کی گرفت کیسی ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Balochistan Me Bum Dhamaky Dehshat Gardi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.