بے توقیر درد

وطنِ عزیز میں ایک روایت ہے کہ جب بھی کسی صاحب حیثیت فرد پر اذن الٰہی سے کوئی مصیبت آتی ہے تو اگلے کچھ دن ہر ٹی وی چینل اس سے منسلک ہر چھوٹی بڑی تفصیل نشر کرتا ہے۔ مثلا ان کی عمر کتنی تھی، کہاں پیدائش ہوئی، تعلیم کہاں سے حاصل کی۔

Afshan Khawar افشاں خاور جمعہ 14 ستمبر 2018

Betouqeer Dard
وطنِ عزیز میں ایک روایت ہے کہ جب بھی کسی صاحب حیثیت فرد پر اذن الٰہی سے کوئی مصیبت آتی ہے تو اگلے کچھ دن ہر ٹی وی چینل اس سے منسلک ہر  چھوٹی بڑی تفصیل نشر کرتا ہے۔ مثلا ان کی عمر کتنی تھی، کہاں پیدائش ہوئی، تعلیم کہاں سے حاصل کی۔غرض کہ اولاد کی تعداد اور بیماری اور موت کے اسباب پر مفکرین سیر حاصل تجزیہ کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت ہم کسی بھی خاص انسان، جماعت یا مکتبہ فکر کی بات ھرگز نھیں کر رہے۔


بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اور میڈیا ہر اس انسان کی شخصیت پرستی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے جو صاحب حیثیت اور نمایاں معاشی پس منظر کا مالک ہو۔
امام غزالی سے منسوب ایک قول ہے کہ
" شخصیت پرستی، بت پرستی سے زیادہ خوفناک ہے کیونکہ بت کا دماغ نہیں ہوتا ،جو خراب ہو جائے۔

(جاری ہے)

لیکن جب تم کسی انسان یا خاندان کی پوجا کرتے ہو تو وہ فرعون بن جاتا ہے۔

"
ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اس مادی دنیا میں اکثر تعلق واسطے مادہ پرستی کے گرد گھومتے ہیں اور یہی صاحب حیثیت افراد جب زمانے کی  زبوں حالی کا شکار ہو تے ہیں تو کوئی انکا ذکر تک کرنا پسند نہیں کرتا۔  
سیاسی نظریات سے اتفاق ایک بالکل  الگ بات ہےلیکن حبیب جالب  کا ایک شعر برمحل محسوس ہوتا ہے۔
"
تم سے پہلے بھی اک شخص  جو یہاں تخت نشین تھا ۔


اس کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقین تھا۔
"
ماضی کے ایک فوجی حکمران کے جنازے کی مثال شاید آج بھی بہت لوگوں کو یاد ہو، اور آج شاید بہت سارے اس کا نام تک نہیں پہنچا نتے۔
خیر ابھی ہم جس اعلیٰ مراعات یافتہ طبقے کی بات کر رہے ہیں ان میں احساس برتری پہلے ہی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ جب انکی خوشنودی اور اپنے مفادات کے لیے میڈیا بار بار ان کی تکلیف سے متعلق خبریں دکھاتا ہے تو انہیں اس بات کا یقین کامل ہو جاتا ہے کہ وہ اور ان کے دکھ ملک کے غریب عوام اور ان کی تکالیف سے بالاتر ہیں۔


ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہر انسان کے دکھ اور درد کی قدر ہونی چاہیے۔ ھمارا ماننا ہے کہ موت کی اذیت اور جدائی کا غم جس طرح کسی امیر شخص کو متاثر کرتا ہے بالکل اسی طرح یا اس سے بھی بڑھ کر کسی غریب شخص کو متاثر کرتا ہے۔
اا ستمبر قائد کی وفات کا دن ہے اور اسی دن اس ملک کی ایک سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت اس دنیا سے چلی گئی۔اللہ ہر مسلمان پر رحم کرے اور جانے والے کے ساتھ اچھامعاملہ کرے۔

آمین
اس ملک میں آج سے 6 سال پہلے اسی 11 ستمبر کے دن ایک فیکٹری میں 290 افراد زندہ جلا دیے گیے۔ 11 ستمبر اس حادثے کی برسی کا دن تھا۔ ھمارے میڈیا نے اس خبر کو 3 سے 5 سیکنڈ میں گذار دیا کیونکہ انکی ساری توجہ اس اہم شخصیت کی شخصیت پرستی پر مرکوز تھی۔ ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ایک طبعی موت کا دکھ 290 افراد کی  حادثاتی موت پر کس طرح غالب آ گیا۔


کیا اس کے پیچھے یہ سوچ تو نہیں تھی کہ غریب تو مرتے ہی رہتے ہیں، ان غریب لوگوں کی موت کے ذکر سے کچھ حاصل تو ہونا نہیں۔ کیوں نہ وہ بات کی جائے جس پر ریٹنگ بھی ملے اور وفاداروں کی فہرست میں بھی نام شامل ہو جائے۔
 بلاشبہ یہ حادثہ 6 سال پرانا ہے لیکن کیا اس کی شدت اور دکھ اتنا معمولی ہے کہ اس کو یکسر بھلا دیا جاے۔ کیا  میڈیا پر یہ زمہ داری عائد نھیں ہوتی کہ  اس سانحہ کی برسی والے دن سیمینار یا ٹیبل ٹاک کا اہتمام کیا جاتا۔


 ‏مختلف فیکٹری مالکان کو مدعو کیا جاتا اور ان سے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ان کی طرف سے کیے جانے والے انتظامات  کا پوچھا جاتا۔ اسی طرح ایسی فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کو بھی بلایا جاتا اور ان سے مشورہ لیا جاتا کہ وہ حفاظتی تدابیر کے حوالے سے کس طرح کے انتظامات چاہتے ہیں۔
 ‏ھم لوگ عموما" فیکٹری مالکان سے تو ملتے ہیں لیکن ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔


 ھماری سب سے ایک درخواست ہے کہ کبھی رات کو 12 بجے کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد کو لائن بنا کر فیکٹری میں داخل ہوتا ضرور دیکھیں، بغیر کسی حفاظتی انتظامات یا انتہائی کم حفاظتی اقدامات کے ساتھ  چلنے والی ان فیکٹریوں میں گرمی،حبس اور ہوا کی ناقص آمدورفت کے مسائل ہمیشہ سے موجود رہے ہیں ۔
 ‏
 یہاں مزدور 8 سے 10 گھنٹے روزانہ کام کر کے ماہانہ 12 سے 18 ہزار روپے کماتے ہیں ۔

انہی پیسوں سے ان کا خاندان گزر بسر کرتا ہے، بہنوں کی شادیاں ہوتی ہیں،  بوڑھے والدین کا علاج اور بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے ھوتے ہیں۔
 ‏ذرا سوچئے جب اس گھرانے سے کمانے والا چلا جاتا ہے تو ان پر کیا بیتتی ھو گی۔
 ‏
موت کا دکھ تو سب کو ھوتا ہے۔ لیکن عالی شان ھسپتال میں قابل ڈاکٹروں کے جھرمٹ میں وفات پانے والے کے لواحقین کے دکھ کا موازنہ ایک سرکاری ھسپتال میں دوا نہ ملنے کے باعث مرنے والے شخص کے اہلخانہ کے درد سے نہیں کیا جا سکتا جو لاش لے جانے کے لئے چندہ کر کے ایمبولینس کا کرایہ دیتے ہیں۔


جب کسی عسرت زدہ گھرانے کے سربراہ کی موت ھوتی ھے تو بہت بار اس موت کا شکار اس گھر کے بچوں کی معصومیت اور عورت کی عزت بھی ھوتی ھے۔
۔۔۔کہتے ہیں جن معاشروں میں روٹی مہنگی ہو وھاں عورت کی عزت بہت سستی ھو جاتی ھے ۔۔۔۔
مرنے والا تو یہ دنیا چھوڑ جاتا ہے لیکن پیچھے رہ جانے والے روز مرتے ہیں ۔ ۔۔
11 ستمبر ان فیکٹری ملازمین کی چھٹی برسی کا دن تھا اور 12 ستمبر کی صبح ایک اور حادثے کی خبر لائی۔


کوہاٹ کے قریب 13 کان کن کوئلے کی کان میں دھماکہ ھونے کی وجہ سے وفات پا گئے ۔ ھم میں سے بہت سے افراد نے شاید کوئلے کی کانیں دیکھی ھوں گی اور کچھ افراد نے ان میں کام کرنے والے کان کنوں کو بھی دیکھا ھو گا۔ ھر قسم کی انشورنس اور علاج معالجہ سے محروم یہ کان کن یومیہ اجرت پر ان کانوں میں کام کرتے ہیں۔ ان افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ٹی بی،  جگر اور پھیپھڑوں کے مہلک امراض کا شکار ھوتی ھے۔


 اگر ان کان کنوں کی زندگی کا قریب سے مطالعہ کیا جائے تو  بلاشبہ انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ موت ھی ان محنت کشوں کی زندگی میں آسانی لاتی ہے ۔ ان کان کنوں میں آپکو  13 سال کے بچے بھی نظر آتے ہیں جن کی گھریلو مجبوریاں ان کو اس خطرناک پیشے میں لے آتی ہیں۔
 ‏
 ‏کچھ کانوں کو چھوڑ کر زیادہ تر کانوں میں حفاظتی اقدامات نہ ھونے کے برابر یا سرے سے ھی غائب ہوتے ہیں۔

وہاں بلاسٹنگ کا کام بھی عموما" غیر تربیت یافتہ عملہ ہی کرتاہے۔ ماھانہ، ششماھی، یا سالانہ بنیادوں پر ان کانوں کے معائنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ھوتا۔ کسی بھی ھنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے یہاں کوئی تربیت یافتہ عملہ،  ایمبولینس اور دیگر ضروری انتظامات سرے سے ھی نہیں ھوتے۔
 ‏
کان کن کی ھلاکت کی صورت میں مالکان کی طرف سے میت نکال کر ورثا کے حوالے کر دی جاتی ہے۔

اور بطور احسان 20-30 ہزار دے کر اہلخانہ کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔
چونکہ ان علاقوں میں بیروزگاری اور غربت بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے مرنے والوں کی جگہ پر کام کرنے کے لئے فورا دوسرے لوگ تیار ھو جاتے ہیں۔
ارباب اختیار اور مراعات یافتہ طبقے کے لوگوں کا سوگ منانے والے کاش کبھی صبح کے وقت کانوں میں اترتے ہوئے مزدوروں کے چہرے پر خوف اور مایوسی دیکھ سکیں۔


۔۔۔یہ لوگ روز قبر میں اترتے ہیں، کسی دن یہ قبر بند ھو جاتی ھے اور یہ وہیں رہ جاتے ہیں۔۔۔
جب بھی ان کانوں میں کوئی حادثہ ہوتا ہے تو ھمیں نہیں یاد کہ کسی ٹی وی چینل نے کوئی پروگرام کیا ھو یا کسی اہل عقل و دانش کو بلا کر کوئی مباحثہ کروایا ہو کہ اس طرح کے حادثوں کا کس طرح سدباب کیا جائے۔ یہ حادثے خبروں میں 5 سے 10 سیکنڈ سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں سمجھے جاتے۔

کسی بھی ٹاک شو میں ان کانوں کے مالکان کا مواخذہ کرنے پر زور نہیں دیا جاتا۔ ان کانوں کے مالکان سے کبھی کوئی باز پرس نہیں ھوتی، کیونکہ عموما" یہ مقامی سردار ہوتے ہیں یا ان کے مقامی سرداروں سے گہرے روابط ھوتے ہیں۔  
شہر کے ریستورانوں یا ہسپتالوں میں ٹی وی چینلوں کے تحقیقاتی شعبہ کے افراد کافی متحرک رہتے ہیں، کاش کبھی وہ ان جگہوں کا بھی دورہ کریں، جہاں سے انہیں بہت زیادہ ریٹنگ تو شاید نہ ملے لیکن وہ اپنے پیشے کا حق ضرور ادا کر پائیں گے۔


ھمیں یہ سوچ کر بہت حیرت ھوتی ھے کہ کیا یہ بے بس، بے گناہ اور بے زبان افراد انسان نہیں؟ ان کے جسم میں موجود خون ھمارے ارباب اختیار کے خون سے ارزاں کیوں ہے؟
کیا یہ کسی کے والدین،  شریک حیات یا اولاد نہیں ہیں؟
ان کی زندگیاں اور درد بے توقیر کیوں ہیں؟
یہ لوگ پیٹ بھر روٹی کھانے، سکون کی نیند سونے، با عزت اور محفوظ ماحول میں کام کرنے کے حقدار کیوں نہیں ہیں؟
یقین مانیئے ان کی آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسوؤں میں امراء کے آنسوؤں سے زیادہ سچائی اور خلوص ھوتا ہے۔


ھمارا معاشرہ اور میڈیا نہ جانے یہ کیوں سمجھتا ہے کہ کسی عام انسان کی موت یا کسی حادثے کا شکار ھونا ایک بالکل عام سی بات ہے۔ ہاں اگر یہی واقعہ کسی بڑی شخصیت کے ساتھ پیش آجائے تو سارا میڈیا نوحہ کناں ھو جاتا ہے۔
ھم سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیماری،  جدائی اور موت ہر انسان کو تکلیف دیتی ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ کم از کم اپنے لئے بول بھی سکتا ہے اور ہر طرح کی سہولیات خرید بھی لیتا ہے۔


بطور انسان ھم سب پر یہ لازم ہے کہ ھم ان لوگوں کے حقوق کے لئے اقدامات کریں جنھیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ھمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ھم ان کی آواز بنیں جو اپنے لئے نہیں بول سکتے۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں تو اس کا بندہ بنوں گا جسے خدا کے بندوں سے پیار ھو گا

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Betouqeer Dard is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 September 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.