بلوچستان دہشتگردوں کاآسان ہدف

خودکش حملے معمول بن گئے․․․․․․․․․․․․ ہزارہ برادری اور پنجابیوں کی ٹارگٹ کلنگ جاری

جمعہ 29 دسمبر 2017

Blochitstan Dehsht Gardoo ka Assan hadaf
عدن جی:
ایک بار پھر کوئٹہ کی سڑکوں پر بے گناہوں کا خون بہہ رہا تھا اور اب یہ تو معمول بن چکا ہے ہر ہفتے دہشت گردی، خودکش حملے اور خوفناک عمل ہوتا ہے اور خواتین بچوں سمیت بے شمار لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں۔ وقتی بھاگ دوڑ ، مذمتی بیانات ، امداد کا اعلان ، آپریشن اور پھر زندگی معمول پر آجاتی ہے اب بھی یہی ہوا کہ اتوار کی مسیحی برادری اپنی مذہبی عبادات کے لئے چرچ میں جمع تھی جن کی تعداد چار سو کے قریب تھی کہ سولہ سے بیس سال کی عمر کے چار دہشت گردوں نے اندر گھسنے کی کوشش کی فائرنگ پر چوکیدار نے چرچ کا گیٹ بند کردیا جوابی فائرنگ نے ایک دہشت گرد کو ختم کردیا دوسرے نے راہ نہ پاکر خود کو اڑا لیا حملہ آور فرار ہوگئے اگرچہ بروقت کاروائی سے بڑے نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر چھ افراد جو کرسمس کا خواب سجائے عبادت کررہے تھے جاں بحق ہوگئے زخمیوں کی حالت ہمیشہ دکھ یاد کرتے ہوئے خو ف کے عالم میں گزرتی ہے ۔

(جاری ہے)

زرغون روڈ کوئٹہ کا یہ چرچ خاصا قدیم اور معروف اور مصروف شاہرہ بلکہ چوک پر ہے اوردن کے اوقات میں چھٹی کے دن ایسے واقعہ کا ہونا کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے کیونکہ مزاروں عبادت گاہوں خصوصاََ اقلیتی کمیونٹی پر حملہ بزدلانہ فعل ہے۔ داعش کے حوالے سے حکومت نے کہا ہے کہ اس کی ذمہ داری قبول کی ہے مگر یہ صرف حکومت بلوچستان کا موقف ہے میڈیا کے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں کیونکہ ویسے بھی فون کرنے والا جو بھی کہہ دے کوئی تصدیق تو نہیں ہوتی کہ اس کا تعلق کالعدم بی ایل اے سے ہے یا طالبان تحریک سے ہے مگر یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ وہ دونوں غیر ملکی تھے۔

وفاقی حکومت نے اس سانحہ کے مرنے والوں اور زخمیوں کے لئے دس اور پانچ لاکھ کا اعلان کیا ہے مگر یہ سوچ تو سب کی ہے کہ زیادہ بڑے نقصان سے رب نے بچا لیا۔ مگر سیاسی حلقے یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ کوئٹہ میں آئے دن ہونے والے خودکش حملوں کے حوالے سے یقینا ایجنسیوں کا باخبر ہونا چاہیے جو اُن کی نااہلی ہے ۔ اس کے مضبوط نیٹ ورک کو کیسے توڑا جائے ، یہ فیصلہ اب حکومت بلوچستان کو لینا چاہیے۔

جس پر وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے خود کش حملے کے ناکام ہونے اور دو خودکش حملہ آوروں کو اسلحہ اور خودکش جیکٹ سمیت گرفتاری کی خبر تو دی ہے مگر سیاسی ماہرین اس کاروائی کو کوئٹہ میں ایم بم کو ناکارہ بنانے کی خبروں کو زیادہ اہم یا باوثوق نہیں کہہ رہے کیونکہ دہشت گردوں کی کاروائیاں جاری ہیں۔ جیسے ڈیرہ بگٹی کے نواحی علاقے نوحقانی میں گھر میں گھس کر 6 خواتین اور بچوں کو ہلاک کر دیا گیا اور ان کا رشتہ دار مدد کو آتے ہوئے بارودی سرنگ سے ٹکرا کر جاں بحق ہوگیا۔

مگر یہ طے ہے کہ بلوچستان اس وقت دہشت گردوں کیلئے خاصا آسان ہدف بن چکا ہے ہزارہ برادری پنجابی(جو بچے کھچے ہیں) اور اقلیتی برادری پر حملہ کرنا دہشت گردوں کے لئے آسان کیوں ہے ۔ یقینا اس میں سہولت کاروں کے بغیر تو آسان نہیں جو مقامی ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ ہدف بلوچ کیوں نہیں ہیں۔ پٹھان تو زد میں آجاتے ہیں جبکہ افغان مہاجرین بہت بڑی تعداد میں بلوچستان کی میزبانی کا لطف اُٹھا رہے ہیں اور اتنے بڑوں میں ایک نسل تیار ہوچکی ہے اور افغانستان میں بھارت کے ٹریننگ کیمپ بھی ہیں اور کلبھوشن بھارتی جاسوس بلوچستان کا ہی ٹارگٹ لے کر یہاں کام کرتا رہا اور پورا نیٹ ورک چل رہا تھا ممکن ہے اس کی باقیات اس تحزیب کاری کا بھارتی فریضہ ادا کررہی ہوں اور چاہ بہار میں بھارتی شمولیت کے باوجود سی پیک پر بھارت کی پریشانی کم نہیں ہورہی اور وہ اپنے مذموم عزائم پر عمل کررہا ہے اور تازہ اطلاعات کے مطابق اب افغان خواتین کی بھی تحزیب کاری کی تربیت کی جارہی ہے ۔

حکومت کو صرف مذمت سے آگے بڑھ کر اس دہشت گردی کو روکنے کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔اب بھارت کا گوادر پر وایلا نئے انداز میں بڑھ رہا ہے اور اس نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ چین گوادر فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرے گا۔ امریکہ بھی اس تشویش میں شامل ہے۔ پینٹا گون سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گوادر مستقبل میں چین کا فوجی اڈا بن سکتا ہے اور اس کا موازنہ سری لنکا کی بندرگاہ ہمبنٹو نا سے کیا جارہا ہے جو بعد میں بندرگاہی کمپلیکس میں تبدیل ہوگیا تھا۔

چینی وزیر دفاع اس کی تردید کرچکے ہیں۔ پاکستان نے بھی واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ گوادر بندرگاہ تجارتی مقاصد کے لئے استعمال ہوگی۔ بھارت نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ سی پیک کے لئے چین کی جانب سے فراہم کئے جانے والے قرض پر بھاری سود ہوگا اور منصوبوں کے لئے رقوم کی فراہمی بھی روک دی گئی ہے۔ جس کی چین کی جانب سے تردید کردی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ پراپیگنڈہ محض عوام میں غلط فہمی پھیلانے کے لئے ہے۔

یہ اطلاعات غلط ہیں شرح سود محض ایک سے دو فیصد ہے ۔ کسی مالیاتی منصوبے کے انتظام او رنظرثانی کو منفی انداز میں نہیں لینا چاہیے۔ ان سب وضاحتوں کے بعد چین سے معاملات ٹھیک ہونے چاہیے اور یقینا اس پر توجہ دینے کی ضرورت اس انداز سے ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام بلوچستان کی ان قربانیوں کو محسوس کریں جو بلوچستان اتنی بھاری قیمت ادا کررہا ہے اور دہشت گردی کی یہ جنگ اب صرف بلوچستان میں لڑی جارہی ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گرد اتنے آرام سے پولیس کے اعلیٰ حکام آئی جی دی آئی جی کو خاندان سمیت موت کی نیند سلا دیتے ہیں کہ جیسے یہ سب کچھ اتنا آسان ہے دہشت گردوں کے لئے اور وہ کر گزرتے ہیں۔

ہمیں ان حالات میں آپس کی مذہبی، لسانی تفریق کو بھی بھلانا ہوگا اور آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کے لئے وفاقی حکومت کے تعاون سے مضبوط حکمت عملی اپنانا ہوگی اور سوچنا ہوگا کہ کوئٹہ کی سڑکوں پر بے گناہوں کا خون کب تک بہتا رہے گا اور دشمن یہاں آکر تو خود وار نہیں کرتا تو اس کے سہولت کار کون ہیں یہ بھی دیکھنا اہم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Blochitstan Dehsht Gardoo ka Assan hadaf is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.