
ڈونلڈ ٹرمپ بھی نااہلی کی زد میں ؟
صدارتی الیکشن میں روسی خفیہ ایجنسی کی مداخلت،،،،، امریکی صدر نے اپنے مواخذے سے توجہ ہٹانے کے لیے اسرائیل فلسطین تنازع کو ہوا دی!
منگل 9 جنوری 2018

تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ دنیا کے ہر ملک بالخصوص ترقی پذید ممالک کی سیاست میں ہمیشہ سے مداخلت کرنا اپنا فرض اولین سمجھتارہا ہے اس لئے دنیا کے جس ملک میں بھی الیکشن کے نتائج کسی کے لیے حسب و الخوا نہیں آتے تھے تو ان کی طرف سے ایک ہی الزام عائد کیا جاتا تھا کہ انتخابی دھاندلی میں امریکی ملوث ہیں ایسے ہی کچھ تصورات ہم پاکستانیوں کے بھی ہمیشہ سے امریکہ کے بارے میں رہے ہیں ہمارے ہاں حکومتیں بنائی جائیں یا گرائی جائیں تحریکیں کامیاب ہوں یا ناکامی سے دوچار ہوں الزام ہم نے بہر حال امریکہ پر ہی دھرنا ہوتا ہے صرف اپوزیشن ہی نہیں ہماری حکومتوں کو بھی اپنے خلاف ہونے والے ہر اقدام کے پیچھے امریکہ بہادر کا ہاتھ ہی نظر آتا ہے اس تمام صور ت حال میں جب ہم یہ خبر سنتے ہیں کہ امریکی انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہیں تو ہمیں یہ خبر کچھ جھوٹی سی جھوٹی لگتی ہے ہمیں یقین ہی نہیں آتا کہ امریکی انتخابات میں امریکہ کے علاوہ بھی کوئی دھاندلی کرسکتا ہے اور دھاندلی بھی ایسی جس کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص جس سے بظاہر پورا امریکہ خائف نظر آتا ہو صدارتی منصب پر فائز ہوجائے بہر حال ایک بات طے ہے کہ ہمارے نزدیک امریکی انتخابات میں دھاندلی کی خبریں کتنی ہی غیر مصدقہ یا نا قابل اعتبار کیوں نہ ہوں مگر امریکی عوام کے لیے یہی آج کا سب سے بڑا سچ ہے اور حالات و قرائن اشارہ دیتے ہیں کہ اب وہ وقت دور نہیں جب یہی سچ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نا اہلی کی وہ تیز دھاری تلوار بن جائے گا جس کے مہلک دار سے بچنا امریکی صدر کے لیے آسان نہیں ہوگا جس کی پہلی ابتدا امریکہ کے سابق مشیر قومی سلامتی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی مائیک فلین کی عدالت میں کئے جانے والے اس اعتراف سے ہوگئی ہے کہ انہوں نے دوران تفشیش روس سے اپنے تعلقات کے معاملے پر ایف بی آر سے جھوٹ بولا تھا یہ خبر سامنے آتے ہی امریکا کا اسٹاک مارکیٹس میں زبردست مندی دیکھی گئی ہے اس کیس میں مائیک فلین وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں اور ان کے جھوٹ بولنے کے اعترافی بیان کے بعد نئے سوالات پیدا ہوگئے ہیں کہ کیا ٹرمپ کے داماد جیراڈکشز بھی روس کے سامنے فلین نے اعتراف کیا ہے کہ جنوری میں ایف بی آئی کے تحقیقات کاروں نے ان سے تفشیش کی جس میں انہوں نے روسی سفیر سے ہونے والی اپنی گفتگو کے بارے میں جھوٹا بیان دیا مائیک فلین گزشتہ سال دسمبر میں ٹرمپ کے صدارت سنبھالنے سے قبل روسی سفیر سرگئی کسلیاک کے ساتھ پانچ ملاقاتیں کیں اور روس پر پابندیوں بارے میں معلومات پر تبادلہ خیال کیا یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ2016 کے امریکی صدارتی الیکشن میں مبینہ روسی مداخلت کے حوالے سے امریکہ میں تحقیقات وسیع تر پیمانے پر ہورہی ہے اور مائیک فلین ٹرمپ حکومت کے پہلے عہدے دار ہیں جنہوں نے روس سے رابطوں کا اعتراف کیا اسے ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی تابوت میں پہلی کیل بھی قرار دیا جارہا ہے مائیک فلین کو مشیر قومی سلامتی کے عہدے پر تعیناتی کے ایک ماہ بعد ہی فروری میں برخاست کردیا گیا تھا برخاستگی سے چند ہفتے پہلے امریکی محکمہ انصاف نے وائٹ ہاؤس کو خبر دار کردیا تھا کہ مائیک فلین نے روسی حکام کے ساتھ اسی وقت نجی حیثیت میں مذاکرات شروع کردئیے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کا عہدہ سنبھالا بھی نہیں تھامحکمہ انصاف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بات ک بنیاد پر فلین کو بآسانی بلیک میل کیا جاسکتا ہے جو امریکی مفادات کے لیے اچھا نہیں ہوگا یہی بات امریکہ کی قائم مقام اٹارنی جنرل سیلی ییٹس بھی کہتی رہی تھیں جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی حکم نامے کی خلاف ورزی پر برطرف کردیا تھا ییٹس کا کہنا تھا کہ فلین نے امریکہ میں روسی سفیرسے اپنے رابطے کی نوعیت کے بارے میں وائٹ ہاؤس کو گمراہ کیا تھا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان روابط کی بنیاد پر انہیں بلیک میل کرکے اہم قومی بھی تبدیل کروائے جاسکتے ہیں اس معاملہ کی سنگینی اور اس ضمن میں ہونے والی تحقیقات کی حساسیت کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے دنیا کی تین سب سے بڑی ٹیک کمپنیوں فیس بُک ٹویٹر اور الفابیٹ جوکہ گوگل کی پیرنٹ یعنی سرپرست کمپنی ہے کو طلب کرلیا کہ وہ بھی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر 2016 میں ہو نے والے امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کے اگر کوئی ثبوت ہے تو مہیا کرے یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان ٹیک کمپنیوں کی طرف سے کون کون کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر مانگی گئی تفصیلات مہیا کرئے گا فیس بک نے تصدیق ہے کہ واقعی انہیں امریکی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے طلبی کا سمن موصول ہوا ہے جس میں ان سے اس بات کی وضاحت مانگی گئی ہے کہ سوشل میڈیا اور آن لائن اشتہارات پر روس یا روسی شہریوں کی طرف سے اثر انداز ہونے کے ان کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو پیش کیے جائیں اس کے ساتھ سوشل میڈیا پر ٹیک نیوز سٹوریز کی بھی مکمل تفصیلات مانگی گئی ہے جد صدارتی الیکشن کے دوران انٹرنیٹ پر وائرل کی گئی تھیں فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ نے کہا ہے کہ وہ ان کی کمیٹی امریکی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے ساتھ مکمل تعاون کریں گی جبکہ ٹویٹر اور گوگل انتظامیہ نے کمیٹی کے سامنے پیشی کے حوالے سے کھل کے کسی بھی قسم کی گفتگو کرنے سے احتراز کیا ہے لیکن ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ٹویٹر اور گوگل انتظامیہ نے سینٹ کمیٹی کے سامنے وہ تمام دستاویزی ریکارڈ مہیا کرنے کا ارادہ کرلیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ واقعی امریکی صدارتی الیکشن میں روسی خفیہ ایجنسی نے اثر انداز ہونے کی کوشش کی جبکہ ایک امریکی نیوز چینل نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دامادجیرڈ کوشز نے مائیک فلین کو روسی حکام سے رابطوں کی ہدایت دی تھی جس کے بعد سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے ڈیمو کریٹ ارکان نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوشز سے بھی دوبارہ پوچھ گچھ کریں گے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کے دعووں کے بارے میں تحقیقات کرنے والی خصوصی تفشیش کا رابرٹ مولر نے فلین کے خلاف روس سے رابطوں کے الزامات عائد کئے تھے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہمارے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نااہلی کا بدنما داغ اپنی پیشانی پر لکھوانے والے ہیں ؟اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا امریکی آئین کے مطابق کسی صدر کو نااہل کئے جانے کا امکان پایا جاتا ہے تو اس کا ایک سطر میں تو یہ ہی جواب دیا جاسکتا ہے کہ ہاں!کیونکہ امریکی آئین میں غداری رشوت یا دیگر بڑے جرائم اور چھوٹے جرائم جنہیں Misdemeansors کہا جاتا ہے کو ثابت ہونے کے بعد بآسانی امریکی صدر کو نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے امریکہ میں مواخذے کے ذریعے کسی صدر یا اہلکار کو عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے مواخذے کا قدم ایوان نمائندگان اٹھاسکتا ہے اور اس کی منظوری کے لئے صرف سادہ اکثریت کی ضرورت ہے یہ بل بعد ازاں سینیٹ میں بھی پیش ہوتا ہے لیکن وہاں عہدے سے ہٹانے کے لیے وہ تہائی اکثریت کی ضرورت ہے امریکی تاریخ میں دو صدور ایمڈریو جانسن اور صدر بل کلنٹن امریکی ایوان نمائندگان میں نااہلی کی اس کاروائی کا سامنا کرچکے ہیں لیکن دونوں خوش قسمت رہے اور نااہلی کے کلنگ سے بال بال بچے گئے ان دو صدور میں ایک تو بل کلنٹن شامل ہے جنہیں انصاف رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے اس کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے مونیکا لیو نسکی سے اپنے تعلق کے بارے میں نہ صرف جھوٹ بولا بلکہ مبینہ طور پر مونیکا کو بھی جھوٹ بھولنے کی ترغیب دی ان پر جو دو الزام لگے ان میں سے پہلے پر مواخذے کے حق میں 206 کے مقابلے میں 228 سے فیصلہ ہوا دوسرے الزام میں 212 کے مقابلے میں 221 ووٹوں سے فیصلہ ہوا اس وقت جائزوں کے مطابق بل کلنٹن کی شہرت 72 فیصد تھی تاہم 1999 میں سینیٹ پہچنے پر دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہوسکی دوسرے صدر جن کا مواخذہ ہوا وہ اینڈریوجانسن تھے وہ17 ویں امریکی صدر تھے ان کو مواخذہ 1868 میں کیا گیا امریکی سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک آنے والے دونوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی مواخذہ یقینی ہے۔
(جاری ہے)
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
donald trump be Na Ahli Ki zad Main is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.