دشمن کتنے ؟

معصوم اور مجبور لوگوں کے منہ سے نوالے چھین کر آرڈی نینس فیکٹریوں کی نذر کیے جاتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ یہ منہ سے چھینے گئے نوالے ان پر گولیوں کی بارش کی صورت میں برستی ہیں اور بے چارے مجبور لوگ لاشوں کی صورت میں گر جاتے ہیں

Hamid Tabani حامد تابانی جمعرات 21 مارچ 2019

dushman kitney ?
 اس تھوڑی سی زندگی میں انسان کو ہر طرف خطرات اور خدشات کا سامنا ہے۔کوئی شخص اس سے مستثنی نہیں۔ہاں البتہ خطرات کماور زیادہ ہو سکتے ہیں۔ہر لمحہ اور ہر گھڑی یہ فکر لا حق رہتی ہے کہ کب بھپرے ہوئے انسانوں کا ریلا آئے گا اور سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔زندگی کی ڈور ٹوٹ جائے گی۔ انسان کی اپنی جمع پونجی اس دشمن بن جاتی ہے۔انسان کی علم وافکار ،تدبر،دور اندیشی ،فصاحت و بلا غت ،ایمان اور عقیدہ اور یہاں تک کہ انسان کی اپنی خوبصورتی اس کے لیے ایک روگ اور درد سر بن جاتی ہے۔

بقول شاعر
 اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
 جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
 فطرت انسانی میں ایک بیماری ہے جس کا نام حسد ہے جس نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں جنم لیااور ہابیل قابیل کا واقعہ رونما ہوا۔

(جاری ہے)

حضرت ہوسف علیہ السلام کو اپنے علم اور حسن کی وجہ سے پس زنداں ہونا پڑا۔خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی اور امام حسین  کو اپنے پختہ عقیدے کی وجہ سے شہید کیا گیا۔

 ہماری زندگی میں اگر دیکھا جائے تو سکھ کے لمحات نہایت قلیل اور دکھ کے لمحات کی بہتات ہے۔آج کل انسان کا مال و زر اس کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔رات کے اندھیرے میں یا دن دیہاڑے کوئی بھی لٹ سکتاہے اور لمحوں میں واردات کر نے والے غائب ہو جاتے ہیں۔چاہے یہ مال و دولت کتنے محنت اور مشقت سے حاصل کی گئی ہو۔اس سے لٹیروں کو کوئی غرض نہیں۔اگر آپ علمی لحاظ سے کامل ہو،فصاحت و بلاغت آپ کا طئرہ امتیاز ہو،ایک دنیا اس کی خوبیوں کی معترف ہو لیکن یہ علم ،فصاحت و بلاغت اور اس قبیل کی دیگر خوبیاں کسی بھی وقت زندگی کی ڈور سے آزاد کر انے کے لیے کافی ہے۔

کیوں کہ ایک کثیر تعداد میں لوگ آپ سے حسد کر تے ہیں اور وہ آپ کو ترقی کے زینے چڑھنے نہیں دیتے۔ان لو گوں سے کسی کی خوشیاں دیکھی نہیں جا تیں۔
 روزانہ اخبارات ،ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع سوشل میڈیا پر ایسی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔مادی وسائل کی وجہ سے لوگ آپس میں مشت وگریبان ہیں۔چھینا چھینی کا دور دورہ ہے ۔ کوئی دکان لوٹتا ہے تو کوئی بینک میں ڈاکہ ڈالتا ہے ۔

کوئی پرس چوری کرتا ہے تو کوئی موبائل ،کوئی سونے کا دیوانہ ہے تو کوئی چاندی کا۔اپنی جمع پونجی کی حفا ظت میںآ پ اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔اس لیے تو کہتے ہیں کہ انسانی خون سستا ہو گیا ہے۔
 بین الاقوامی سطح پر لوگ ایک دوسرے کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔امریکہ نے عراق کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ۔افغا نستان کو خون میں نہلا دیا ۔وجہ یہ وسائل ہیں ۔

آپ کے پاس تیل ہے ۔گیس ہے ،کوئلہ ہے یا دوسری معدنیات۔آپ کے وسائل وذخائر آپ کے لیے ایک عالمی خطرہ بن چکے ہیں۔پا کستان میں منتخب حکومت کو ہمیشہ دھرنوں ،جلسوں اور جلو سوں اور توڑ پھوڑ کے ذریعے گرانے کی کوشش کی گئی۔ ترقی کے اس دور میں جہاں انسان کے لیے آسائشیں اور سہولتیں روز پروز بڑھ رہی ہیں،تو دوسری طرف ساتھ ساتھ انسان کی موت کے آلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔

روز نت نئی ایجادات ہورہی ہیں۔میزائل اور گولیوں کی فیکٹریاں تعمیر ہو رہی ہیں۔معصوم اور مجبور لوگوں کے منہ سے نوالے چھین کر آرڈی نینس فیکٹریوں کی نذر کیے جاتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ یہ منہ سے چھینے گئے نوالے ان پر گولیوں کی بارش کی صورت میں برستی ہیں اور بے چارے مجبور لوگ لاشوں کی صورت میں گر جاتے ہیں ۔
 جاتے جاتے ایک غزل نذر قارئین ہے
رویا ہوں تیری یاد میں دن رات مسلسل
ایسی کھبی ہوتی نہیں برسات مسلسل
کانٹے کی طرح ہوں میں رقیبوں کی نظر میں
رہتے ہیں میرے گھات میں چھ سات مسلسل
چہرے کو نئے ڈھب سے سجاتے ہیں وہ ہر روز
بنتے ہیں میری موت کے آلات مسلسل
اجلاس کا عنوان ہے اخلاص و مروت
بدخوئی میں مصروف ہیں حضرات مسلسل
ہم نے تو کوئی چیز بھی ایجادنہیں کی
آتے ہیں نظر ان کے کمالات مسلسل
کرتے ہیں مساوت کی تبلیغ وہ جوں جوں
بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں طبقات مسلسل
ہر روز کسی شہر میں ہوتے ہیں دھماکے
رہتے ہیں میرے دیس میں شب رات مسلسل
ہر روز وہ ملتے ہیں نئے روپ میں مجھ کو
پڑتے ہیں مری صحت یہ اثرات مسلسل 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

dushman kitney ? is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.