احتساب اور اعتماد

آج کل ملک کے تمام اخبارت، رسائل، جرائد اور الیکٹرانک میڈیا پر موضوع ایک ہی ہے اور تمام تر قارئین اور ناظرین کی توجہ بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں چلنے والے پانامہ کیس پر ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد تمام لوگ فیصلے کے منتظر ہیں، عوام کو درپیش دیگر تمام معاملات اور مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ کیس بڑی اہمیت کا حامل ہے

منگل 25 جولائی 2017

Ehtesab Or Aitmaad
آج کل ملک کے تمام اخبارت، رسائل، جرائد اور الیکٹرانک میڈیا پر موضوع ایک ہی ہے اور تمام تر قارئین اور ناظرین کی توجہ بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں چلنے والے پانامہ کیس پر ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد تمام لوگ فیصلے کے منتظر ہیں، عوام کو درپیش دیگر تمام معاملات اور مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ کیس بڑی اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس کیس سے جڑے موضوعات، مضمرات اور اثرات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔

کیس کا فیصلہ تو فاضل عدالت ہی کرے گی اور فیصلے کے اثرات کا جائزہ اس کے بعد ہی لیا جائے گا۔ اب تک جے آئی ٹی نے جو رپورٹ پیش کی ہے اس سے بھی عوام الناس کی سوچ پر کچھ اثرات مرتب ہوئے ہیں جو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔سیاسی تبصروں کی روانی میں ہم تمام لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ گزشتہ تین یا چار دہائیوں میں من حیث القوم ہم نے کیا کچھ کھو دیا، ہم کون کون سے ذہنی صدموں سے دوچار ہوئے، کون کون سے خیالات ہمارے مزاج کا حصہ بن گئے اور ہمارا کن کن چیزوں سے اعتماد اٹھ گیا۔

(جاری ہے)

سب سے بڑا نقصان شاید اعتماد کا اْٹھ جانا ہے، ہمارا لوگوں، اداروں بالخصوص صاحب اختیار و اقتدار سے اعتماد اٹھ چکا ہے باوجود اس حقیقت کے کہ ہمارے معاشرے میں اب بھی اچھے افراد کی تعداد زیادہ ہے لیکن عوام کے نمائندہ افراد ہی کسی قوم کا تاثر بناتے ہیں۔
ہم لوگ اپنی تمام تر گفتگو کو چند رٹے رٹائے جملوں پر اختتام تک پہنچانے کے عادی ہیں مثلاً ”یہاں کچھ نہیں ہونے والا“، ”سب ڈرامہ ہے“ ، ”اس کام میں بھی کوئی گڑبڑہے“، ”سب کھانے پینے کا چکر ہے“ اور اب بڑا افسوسناک جملہ ”یہاں سب چلتا ہے“، ایسے جملوں سے صرف اور صرف مایوسی پھیلتی ہے اور یہ پرامید اور مضبوط قوموں کا شعار نہیں۔


ایسی ہی فضاء میں جے آئی ٹی کی رپورٹ نے قوم میں یہ تاثر مضبوط کر دیا ہے کہ ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ابھی ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو بغیر کسی سے مرعوب ہوئے حکومتی دباوٴ میں آئے بغیرحکمران جماعت اور وزیراعظم سے منسوب انکوائری مکمل کریں جبکہ انہیں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دباوٴ کا بھی سامنا ہو۔ اس رپورٹ سے عوام میں ایک امید کی کرن تو پیدا ہوئی ہے اور ہم ”اعتماد“ سے اعتماد اٹھتے معاشرے میں اسے برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

عوامی حلقوں نے جے آئی ٹی کے اراکین کو مبارکبادیں بھی دی ہیں۔ اس معاشرے میں یہ ایک اچھی مثال ہے۔ عوام مقتدر لوگوں کا احتساب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن عوام کا اصل مسئلہ کمزوروں کو انصاف کا حصول ہے، عوام کو نچلی سطح تک انصاف چاہیے اور انصاف کا بول بالا چاہیے۔ عوام کے اندر یہ اعتماد کی فضاء کب تک قائم رہتی ہے یہ دیکھنا ہو گا، چلیں حکمران گھرانہ تو عدالت میں جوابدہ ہوا، لیکن ان عوامی نمائندوں قومی و صوبائی اراکین اسمبلی کو کون پوچھے گا جو اپنے معمول کے کاموں کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی چھتری کے نیچے رہ کر ناجائز کام بھی کرتے ہیں اور جب اپنے اوپر آنچ آتی دیکھتے ہیں تو اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں۔

جس پارٹی کی حکومت بنتی دیکھتے ہیں، اس میں جوق درجوق شامل ہو جاتے ہیں اور کوئی ان کے گزشتہ ”کارناموں“ کا احتساب کرنے والا نہیں ہوتا اور دوسری پارٹیاں بھی ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور انہیں پھر سے ٹکٹ دینے پر راضی ہو جاتی ہیں۔ باالفاظ دیگر یہ عمل مستقل احتساب کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ صرف اور صرف سپریم کورٹ سے یہ توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں کہ وہ اکیلے ہی پورے ملک میں احتساب اور انصاف کا عمل مکمل کرے۔

جب تک تمام سیاسی پارٹیاں اس عمل میں شامل ہو کر اپنا اپنا کردار ادا نہیں کریں گی اس وقت تک احتساب نچلی سطح تک نہیں آئے گا۔ بہرحال امید کا دامن تھامے رکھنا چاہیے کہ احتساب جاری رہے، چاہے مچھلی بڑی ہو یا چھوٹی اور اس احتساب سے معاشرے میں پیدا ہونے والا اعتماد نہ صرف قائم رہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Ehtesab Or Aitmaad is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.