گاوٴں کی عورت

ہم گاوٴں کی عورتوں کو سگریٹ پینے ، ٹانگیں کھول کے بیٹھنے یا دوپٹے کے بغیر گھومنے کی آزادی نہیں چاہیئے ، ہمیں صرف وہ اعتماد چاہیئے کہ جس سے ہمیں اپنا آپ حقیر نہ لگے

Qurat ul ain قراة العین ہفتہ 16 مارچ 2019

Gaon ki Aurat
پچھلے دنوں ہونے والے عورت مارچ نے بہت سے نقوش ذہن پہ رقم کیے۔ یہ مارچ اْن شہر کی عورتوں نے کیا تھا جو گاوٴں کی عورتوں کے مسائل سے بالکل نا آشنا ہیں۔ہم گاوٴں کی عورتوں کے مسائل ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب ماں کو پتا لگتا ہے کہ اس کی ہاں بیٹی کی ولادت ہونے والی ہے تو ہماری ماوٴں کو ہمارے نصیب اور جہیز کی فِقر ستانے لگ جاتی ہے۔

ہمارے ہاں والد بیٹی کی پیدائش پہ داڑھی رکھ لیتے ہیں اور ہنسنا مسکرانا ختم کر کے چہرے پر سنجیدگی سجا لیتے ہیں۔لڑکیوں کو تعلیم اور شعور دینا ہمارا فرض نہیں بلکہ ایک شوہر دینا ہمارا سب سے بڑا فریضہ ہے۔
 ہمارے ہاں لڑکیاں بالغ ہوتے ہی رنگ گورا کرنے والی کریمیں استعمال کرنے لگتی ہیں۔کیونکہ ہمارے ہاں یہ عمر شادی کے بندھن میں بندھنے کی ہوتی ہے اس لئیے گندمی رنگ لڑکیوں میں احساس کمتری کی وجہ بھی بنتا ہے۔

(جاری ہے)

ہماری بچیوں کے ذہنوں میں احساس کمتری اتنی بھری ہوئی ہوتی ہے کے اْنہیں اپنی سوندھی مٹی جیسی خوشبو اور گندم کی بالیوں جیسی رنگت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ گاوٴں کی عورتوں کا مسئلہ ایک نسل کی تربیت کی بجائے گورا رنگ ہوتا ہے۔ 
ہم گاوٴں کی عورتوں کے مسائل شہر کی عورتوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ دیہاتی عورتوں کے مسائل اور شہری عورتوں کے مسائل میں اتنا ہی فرق ہے جتنا شہری اور دیہاتی زندگی میں ہے۔

ہماری قسمت ہمارے گاوٴں کی طرف آنے والی سڑک کی طرح ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہے۔ ہمارے خواب اگرچہ ہمارے سرسوں کے کھیتوں کی طرح رنگین ہوتے ہیں پر ہمیں بڑے بڑے خواب دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہمارے خواب بھی ہمارے گاوٴں کی طرح چھوٹے اور کچے ہوتے ہیں جنہیں ہمارے معاشرے کے رسم و رواج ایک سیلابی ریلے کی طرح اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔
گھر سے باہر نکلتے ہوئے ہمیں کبھی بھی اپنا خیال رکھنے کو نہیں کہا جاتا بلکہ بھائی اور والد کی عزت کا خیال رکھنے کو کہا جاتا ہے۔

ہم گاوٴں کی لڑکیوں کو اپنے وسائل اپنے معاشرے اور اپنی قسمت سے بیک وقت لڑنا ہوتا ہے۔ جیتنے کی صورت میں ہمیں باغی ہونے کا خطاب دیا جاتا ہے اور ہارنے کی صورت میں ہمیں اپنے خوابوں، خواہشوں اور امنگوں کی قربانی دینا ہوتی ہے۔ ہمارے مردوں کی سوچ ہمارے آنگنوں کی طرح کشادہ نہیں ہوتی۔ہمارے مردوں کے دلوں میں اپنی عورتوں کے لیے اعتماد اور بھروسہ نہیں ہوتا بلکہ ان کے دل خوف اور وسوسوں سے بھرے ہوتے ہیں۔

 ہمارے ہاں لڑکیوں کی تخلیقی صلاحیتیں صرف جھاڑو پوچے کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس بات کا تصور ہی نہیں ہے کہ لڑکیاں بھی معاشرے میں اپنا نام منوا سکتی ہیں۔ وہ بھی اس کائنات کے اسرار و رموز جان سکتی ہیں۔ انہیں خاندانی جھگڑوں اور غیبتوں میں اس قدر الجھایا ہوا ہے کہ وہ ایک نسل کی تربیت جیسے مقدس فریضے سے بھی غافل ہوتی ہیں۔ وہ روز کے جھاڑو پوچے میں اس قدر مگن ہوتی ہیں کے انہیں پتا ہی نہیں کے اِن کا مقصدِ تخلیق کیا ہے؟ اور اسی غفلت میں وہ ایک دن مر جاتی ہیں۔

ہم گاوٴں کی عورتوں کو وہ اعتماد ہی نہیں دیا جاتا کے جس کی بدولت ہم خود پہ بھروسہ کر سکیں۔ ہم گاوٴں کی عورتوں کو سگریٹ پینے ، ٹانگیں کھول کے بیٹھنے یا دوپٹے کے بغیر گھومنے کی آزادی نہیں چاہیئے ، ہمیں صرف وہ اعتماد چاہیئے کہ جس سے ہمیں اپنا آپ حقیر نہ لگے۔ ہمیں اس خوف سے شادی نہ کرنی پڑے کہ اِنکار کی صورت میں ہمارے کِردار پہ انگلیاں اٹھیں گی۔ ہمیں اتنی ہمت چاہیئے کے ہم اپنے شوہروں کے مظالم کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ ہمارے مسائل کھانا گرم کرنے یا موزے ڈھونڈنے کے نہیں ہیں ، ہمارے مسائل وہ بنیادی انسانی حقوق ہیں جو عورت ہونے کے ناطے ہمیں نہیں ملے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Gaon ki Aurat is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 March 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.