حقوق و فرائض کی آگاہی

عورتوں کو مردوں کے برابر کام کرنے اور علم حاصل کرنے کا حق کئی سو سال پہلے اسلام نے دیا ہے۔عورتوں کو وراثت میں جتنے حقوق ملے ہیں۔ اتنا مغرب کی عورتوں کو بھی نہیں۔ضرورت کے پیش نظر عورت مرد کے ساتھ کام بھی کر سکتی ہے اور اسکی سربراہی بھی

شمائلہ ملک ہفتہ 7 مارچ 2020

haqooq o faraiz ki aagahi
یہ عذر کہ تم اک عورت ہو
تم ہمت ہو،تم قوت ہو
تم اک پرجوش جسارت ہو
تم اک با رعب شجاعت ہو
تم اک رنگین قیامت ہو
تم نصف انسانیت ہو
 شاعر: نعیم صدیقی
تقریبا ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے 8 مارچ کو عالمی دن کے طور پر منایا جا تا ہے۔مختلف تعلیمی ادارے،عورتوں کے حقوق کی تنظیمیں،کاروباری ادارے،سیاسی و سماجی تنظیموں کے علاوہ فلاح وبہبود کے ادارے عورتوں کو ظلم و زیادتی اور ناانصافی سے بچانے، انہیں مردوں کے شانہ نشانہ کھڑا ہونے معاشرے میں پروقار اور با عزت زندگی گزارنے کے لیے عورت مارچ کرتے ہیں۔

جس میں مختلف نعرے لگائے جاتے ہیں جیسا کہ (میں ایک عورت ہوں)اس مارچ میں جہاں مختلف بینرز ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

وہاں جامنی،سبز، اور سفید ربنز بھی استعمال ہوتے ہیں۔ جو کہ عورت کے وقار، برابری اور عظمت کی علامت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یہ مارچ گلیوں، سڑکوں اور چوک میں کیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی میڈیا کے تمام ذرائع عورتوں کے حقوق کی آگاہی کے حوالے سے پروگرامز چلاتے ہیں۔

اب سوال یہ پیش آتا ہے کہ عورت مارچ کی ضرورت کیوں پیش آئی۔8 مارچ 1908 میں امریکہ کے شہر نیو یارک میں گارمنٹس ورکرز نے احتجاج کیا کہ انہیں مردوں کے برابر تنخواہ دی جائے۔ اس مارچ میں 15000 کے قریب عورتوں نے حصہ لیا۔ جن پر پولیس کی طرف سے تشدد ہوا۔ لیکن یہ یونین اتنی مضبوط ہوئی کہ پوری دنیا اسکا ساتھ دینے پر مجبور ہو گئی۔ کیونکہ جب بات آئے عورت کی تو وہ دنیا کے کسی کونے سے ہو وہ قابل احترام ہے۔

اور اس پر ظلم و زیادتی ناقابل برداشت ہے۔ 8 مارچ کو کچھ ممالک میں چھٹی ہوتی ہے جیسا کہ آرمینیا، روس، یوکرائن وغیرہ۔۔
اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہاں عورتوں کو زیادہ تر درپیش مسائل ہیں بچپن میں شادی،غیرت کے نام پہ قتل،وٹہ سٹہ کی شادی، تعلیم سے محروم کر دینا، گھریلو تشدد وغیرہ۔عورت انسان ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار رشتوں سے جڑی ہوئی ہے۔

وہ ایک ماں ہے،بیٹی ہے،بہو ہے، بیوی ہے ان رشتوں کو احسن طریقے سے نبھانے کے لیے بے دریغ قربانیاں دیتی ہے۔ ہمیں اپنے ارد گرد ایک جملہ سننے کو ملتا ہے کہ پڑھو،ڈاکٹر بنو یا افسر، کرنی تو گھر داری ہے۔ کچن سنبھالنا ہے، برتن دھونے ہیں۔ سوچیں یہ جملے عورت کے آگے بڑھنے کو کتنا پست کرتے ہوں گے۔ہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت گھر سنبھالے اور مرد باہر کام کرے۔

لیکن دونوں کے حقوق میں زیادہ فرق نہیں۔ عورتوں کو مردوں کے برابر کام کرنے اور علم حاصل کرنے کا حق کئی سو سال پہلے اسلام نے دیا ہے۔عورتوں کو وراثت میں جتنے حقوق ملے ہیں۔ اتنا مغرب کی عورتوں کو بھی نہیں۔ضرورت کے پیش نظر عورت مرد کے ساتھ کام بھی کر سکتی ہے اور اسکی سربراہی بھی۔ حضرت ورقہ نے آپﷺ کے حکم کے مطابق اپنے شوہر کی امامت کروائی۔

لیکن امامت کروانے سے وہ اپنے شوہر سے برتر ہرگز نہیں ہوئیں۔جہاں عورت کے حقوق ہیں وہاں فرائض بھی ہیں۔ تو عورت مارچ کرتے ہوئے اپنے فرائض،عظمت،وقار،طاقت اور اپنی عزت کو ضرور ذہن نشین کر لے۔یہ حقوق سال میں ایک مرتبہ نعرے لگانے اور راستے بلاک کرنے سے کبھی نہیں مل سکتے۔ اس آگاہی کے لیے ایک ایسا طریقہ کار اپنانا چاہیئے جو شعور شہری اداروں سے نکل کر ہر چوک،بس سٹینڈ،کاروباری اداروں اور دور دراز گاؤں تک پھیل جائے تاکہ کوئی بیٹی بے قصور قتل نہ ہو،کسی کے حقوق سلب نہ ہوں،کوئی بیٹی کسی بھیڑیے کی نظر نہ ہو،کسی پہ ظلم نہ ہو، تو مارچ کے ساتھ ساتھ عورت کے حقوق و فرائض کی آگاہی اور اہمیت پر زور دینا ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

haqooq o faraiz ki aagahi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.