حقوق نسواں حکمرانوں کی ضد اور انا پرستی کی بھینٹ چڑھ گئے

زندگی کے ہر شعبہ میں عورت کے کردار کو رد کرکے اسے زرخرید غلام سمجھا جاتا ہے

منگل 19 جنوری 2021

Huqooq Niswaan Hukamranoon Ki Zid Aur AnaParasti Ki Bhent Char Gaye
بشریٰ شیخ
پسماندہ ممالک میں خواتین کی صورتحال مزید گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔جہاں پر زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین دوہرے تہرے استحصال کا شکار ہیں۔پاکستان جیسے معاشرے میں خواتین کے حوالے سے یہ معیار قائم کیا گیا ہے کہ عورت چاہے خواندہ ہو یا ناخواندہ مگر وہ خود غرض نہ ہو،خاموش ہو،برداشت کرنے والی ہو،قابل بھروسہ ہو،سمجھوتہ کرنے والی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے مزدور کی طرح گھر کی دیکھ بھال کرنے والی بھی ہو۔

جس معاشرے میں عورت کو ایک انسان کے طور پر نہیں دیکھا جا تا ہو وہاں اگر عورت کوئی بھی کردار ادا کرنے کیلئے میدان عمل میں آتی ہے تو سماج میں اسے عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین کے کردار کو رد کرکے انہیں زرخرید غلام بنایا جا تا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں عورت کے حالات زندگی اور سماجی رویئے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

اگر ہم تعلیم کے حوالے سے بات کریں تو گیلپ سروے کے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ مرد اور عورت کا معاشرے میں کردار الگ الگ ہے۔سروے میں 63 فیصد لوگوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ عورت سے زیادہ مرد کے لئے تعلیم ضروری ہے اور یہ شرح دیہات میں 67 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 53 فیصد تھی۔
جبکہ37 فیصد کی رائے اس کے برعکس تھی۔

ان سب چیزوں کے پیش نظر پاکستان میں خواتین کی شرح خواندگی مردوں کے شرح خواندگی، 69.5 فیصد،کے مقابلے میں 45.8 فیصد ہے اور بلوچستان میں پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں سب سے کم 27 فیصد ہے۔دیہی علاقوں میں آباد خواتین کل آبادی کا 26 فیصد ہیں جبکہ یہاں شرح خواندگی محض 2 فیصد ہے۔یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 72 لاکھ 60 ہزار سے زائد بچے سکول نہیں جاتے جس میں 58 فیصد لڑکیاں ہے جس کی شرح بلوچستان میں 66 فیصد ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ہمیشہ لڑکوں کی تعلیم کے بعد سوچا جاتا ہے جس کی واضح مثال یونیسکو ہی کے رپورٹ میں ہے کہ کم آمدنی والے خاندانوں سے 22.3 فیصد لڑکیوں نے کبھی سکول دیکھا ہی نہیں ہے جبکہ انہی خاندانوں کی طرف سے 66.1 فیصد لڑکے سکول سے فارغ ہو جاتے ہیں اور یہ رجحان دیہی علاقوں میں بہت عام ہے جہاں پر لڑکیوں کو تعلیم کے متبادل گھریلو کام اور کم عمری کی شادی تحفے میں دی جاتی ہے۔


روزگار کے حوالے سے اگر پاکستان کے اندر خواتین کے حصہ داری پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کی آبادی کی دو تہائی جوکہ دیہاتوں میں رہتی ہے،وہاں خواتین محنت کے ہر شعبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور گھریلو کاموں کے ساتھ ساتھ دستکاری اور زراعت میں اُن کا اہم کردار ہوتا ہے۔مگر ان کے اس کردار کے باوجود معاشرتی روایات کی خاطر ان کو کبھی وہ سماجی حیثیت نہیں دی جاتی جس کی وہ حق دار ہیں۔

لیکن اس کے باوجود عورت کا پاکستانی معیشت میں اہم کردار ہے اور وقت کے ساتھ ان کے اس شاندار کردار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق صرف 2 فیصد خواتین باقاعدہ روزگار کا حصہ ہیں۔ایک اور رپورٹ کے مطابق 4 کروڑ 70 لاکھ باروزگار افراد میں خواتین کا حصہ صرف 90 لاکھ ہے،جس کا 70 فیصد زراعت سے وابستہ ہے۔زراعت سے وابستہ ان خواتین کو دیہاتوں میں انتہائی کم اُجرتوں اور نامساعد حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔

خواتین کا جس بھی شعبے سے تعلق ہو وہاں وہ شدید استحصال کا شکار ہیں جہاں ان سے حد سے زائد کام لیا جاتا ہے،مردوں کی نسبت کم اُجرتیں دی جاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انہیں جنسی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔پاکستان کا صحت عامہ کا شعبہ جنوبی ایشیا میں کمزور ترین شعبوں میں سے ایک ہے۔صحت کی سہولیات کی اس ناپیدگی سے پورے سماج کو خطرہ ہوتا ہے مگر ایک مرتبہ پھر خواتین سب سے پہلے اس کے نشانے پر آتی ہیں۔


پاکستان میں 70 لاکھ خواتین کی صحت صرف اور صرف غذائی قلت اور صاف پانی کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے جواب دے چکی ہے،اس کے ساتھ ساتھ 7 فیصد خواتین کے دوران حمل’ایچ آئی وی‘کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔سالانہ 30 ہزار خواتین اس مہلک مرض سے دوران زچگی مر جاتی ہیں،چھاتی کے سرطان کے حوالے سے پاکستان کا نمبر ایشیا میں سب سے آگے ہے اور سالانہ 40 ہزار خواتین اس مرض سے مر جاتی ہیں۔

”سیودی چلڈرن“ کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے پاکستان دنیا بھر کے 178 ممالک میں 149 ویں نمبر پر آتا ہے۔ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے مطابق 47 فیصد دیہی اور 17 فیصد شہری خواتین کو صحت عامہ کی سہولیات کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ان مسائل کے علاوہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں،گھریلو تشدد،تیزابی حملے،اغوا کاری،خودکشیاں اور سب سے سنگین مسئلہ غیرت کے نام پر قتل کا ہے۔

اسمبلیوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے نام نہاد سے بلز پاس ہوتے ہیں مگر وہ بھی حکمران طبقے کی ضد اور انا پرستی کا شاخسانہ بن جاتے ہیں۔آج خواتین کو صرف روایتی طرز پر تعلیم حاصل کرنے کی ہی ضرورت درپیش نہیں ہے بلکہ عصر حاضر کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اعلیٰ و پیشہ وارانہ تعلیم کے میدان میں آگے آئیں اور تکنیکی تربیت بھی حاصل کریں تاکہ انہیں روزگار سے جڑنے اور اپنی اور اپنے خاندان کی معاشی حیثیت کو بہتر بنانے میں آسانی ہو۔

جو خواتین گھریلو معیشت کے مختلف ذرائع سے وابستہ ہوئی ہیں انہیں جدید تقاضوں کے مطابق ہنرمندی اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی تربیت اور ان کے فروغ پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے کام اور محنت کی اجرت زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں اور ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل ہو کر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Huqooq Niswaan Hukamranoon Ki Zid Aur AnaParasti Ki Bhent Char Gaye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.