جوبائیڈن کی سعودی عرب کو تنبیہ

نو منتخب امریکی صدر ایران سے جوہری معاہدہ بحال کرنے کو ترجیح دیں گے

ہفتہ 23 جنوری 2021

Joe Biden Ki Saudi Arab Ko Tanbeeh
محبوب احمد
سعودی عرب میں گلف کو آپریشن کونسل ”جی سی سی“ کے ممالک کے درمیان ہونے والے”یکجہتی اور استحکام“کے معاہدے نے خلیجی ممالک کے تعلقات میں ایک نئی گرمجوشی پیدا کر دی ہے۔سعودی عرب ان دنوں ایک قدم آگے بڑھ کر قطر سے سیاسی تعلقات بحال کرنے کا خواہشمند ہے جس کا 6 خلیجی ممالک کے علاوہ مصر،ترکی اور ایران نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔”جی سی سی“ معاہدہ کے حوالے سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں کہ یہ اچانک کیسے ہوا؟،کیا امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی شکست اس کی فوری وجہ تھی؟۔

یاد رہے کہ ساڑھے 3 برس تک سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،بحرین اور مصر نے قطر کو فضائی،زمینی اور بحری پابندیوں کا نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ تعلقات ختم کرکے اس چھوٹے سے خلیجی ملک پر زبردست دباؤ برقرار رکھا۔

(جاری ہے)

2017ء میں 30 لاکھ سے کم آبادی والے تیل اور گیس کے ذخائر سے سرشار اس ملک پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ دہشت گردی کا حامی ہے ایسے میں اب غور طلب امر یہ ہے کہ اب چاروں ملک سیاسی تعلقات بحال کرنے اور اس کے خلاف پابندیاں ختم کرنے پر کیسے راضی ہوئے؟۔


قطر شدت پسندی کی حمایت کرنے سے ہمیشہ سے ہی انکار کرتا آیا ہے اس نے غزہ،لیبیا اور دیگر مقامات پر سیاسی اسلامی تحریکوں کی حمایت کی ہے،اس کے علاوہ قطر نے ایران کے ساتھ تعلقات مضبوط نہ کرنے کے لئے دباؤ کو اپنی خارجہ پالیسی پر حملے کے طور پر دیکھا ہے حالانکہ جی سی سی کے ایک رکن کی حیثیت سے قطر اس بات کیلئے پابند ہو سکتا ہے کہ وہ گروہ کی طے شدہ پالیسی پر عمل کرے دراصل قطر کے سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،بحرین اور مصر سے تعلقات 2014ء میں اس وقت خراب ہو چکے تھے جب ان چاروں ممالک نے اپنے سفارتکاروں کو کچھ ماہ کے لئے واپس بلانے کا قدم اٹھایا تھا۔

قطر کی طرف سے اپنے موٴقف پر برقرار رہنے کی ایک بڑی وجہ اس کا یہ یقین تھا کہ وہ شدت پسندی کا حامی نہیں ہے۔اس بات میں کس حد تک سچائی ہے کہ کویت اور امریکہ کی کئی مہینے کی انتھک سفارتی کوششوں کے نتیجے میں قطر کے خلاف پابندیوں کو ختم کیا جا سکا ہے؟یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن موجودہ حالات میں اگر دیکھا جائے تو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا قطر کے امیر تمیم بن حماد التہانی کو”کرونا“ وائرس کی تباہ کاریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سرعام گلے لگا کر اس عزم کا اعادہ کرنا کہ یہ معاہدہ خلیجی،عرب اور اسلامی یکجہتی و استحکام کی تصدیق کرتا ہے اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے لیکن آنے والے دنوں میں اس کے بھیانک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔

جوبائیڈن کی سعودی عرب کو سختی سے تنبیہ کہ صحافی جمال کاسقجی کے قتل کو وہ ایک انسانی حقوق کے کیس کے طور پر دیکھیں گے اور اس کی تحقیقات بھی کرائی جائیں گی،یمن میں سعودی عرب اور امریکہ کی فوجی کارروائی کی بھی تفتیش ہو گی اسے اب قطر کے امیر التہانی کے رویے میں بھی کچھ نرمی دیکھنے میں آئی جس سے مسئلہ حل کرنے میں آسانی ہوئی ہے۔
ترکی نے قطر کی خاطر خواہ حمایت کی ہے کیونکہ پابندیاں شروع ہونے سے ایک سال قبل یعنی 2016ء میں عبوری طور پر ترکی کو ایک فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی گئی تھی جس پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے قطر پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے سیاسی تعلقات منقطع کر دیئے تھے،حقیقت میں جو ایک مصنوعی مسئلہ کھڑا کیا گیا تھا اسے زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھا جا سکا۔

قطر کی کرنسی کو کمزور کرنے کی کوشش بھی کارگر ثابت نہیں ہو سکی،یکطرفہ اقتصادی اور سرحدی پابندیوں نے خلیفہ،حکومت اور عوام کے لئے کافی مشکلات پیدا کیں لیکن یہ پابندیاں قطری حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کر سکیں دوسری طرف ان ممالک کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ قطر فوجی صلاحیت بڑھا کر ایک علاقائی طاقت بن کر سامنے آجائے گا،یہاں دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ پابندیاں لگائے جانے سے قبل قطری فضائیہ کے پاس صرف 12 جنگی طیارے تھے جبکہ اب اس کے پاس تقریباً 250 جہاز ہیں۔

قطر نے امریکہ،ترکی،اسرائیل، ایران، فرانس،بیلجیئم اور جہاں سے بھی ممکن ہو سکا وہیں سے ہتھیار خرید کر اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔قطر پر پابندیاں ختم کرنے کے لئے 13 شرائط میں پہلی الجزیرہ پر پابندی،دوسری ایران کے ساتھ تعلقات محدود کرنا،تیسری شدت پسند تنظیموں پر پابندی اور ان کی حمایت ختم کرنا جبکہ چوتھی ترکی کے فوجی اڈے کو بند کرنا تھا۔

قطر نے اس میں سے ایک بھی شرط کو تسلیم نہیں کیا،3 سال کے لگ بھگ چلنے والے اس ”سیاسی ڈرامے“ میں یقینا جیت قطر کی ہوئی ہے۔
چین کے مشرقی ایشیاء اور افریقہ میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے امریکی مفادات کیلئے سنگین خطرات پیدا کر دیئے ہیں لہٰذا بگڑتی صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے اب آنے والے دنوں میں نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن اقتدار سنبھالنے کے بعد ایران کے ساتھ کچھ شرائط پر جوہری معاہدہ بحال کرنے کو ترجیح دیں گے۔

حال ہی میں ایران کے ساتھ ہونے والا اسٹریٹجک معاہدہ چین کیلئے انشورنس پالیسی سے کم نہیں ہے۔مشرق وسطیٰ ہی اب وہ محاذ ہے جہاں بیجنگ ایران سے مل کر واشنگٹن کی اجارہ داری کو چیلنج کر رہا ہے۔امریکی افواج نے کئی دہائیوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں قدم جمائے تھے لیکن اب چین مختلف ممالک میں اسٹریٹجک بندرگاہیں تیار کرکے ان کو عسکری شکل دے کر امریکہ کو خطے میں چیلنج کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔

2017ء میں برسراقتدار آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ 2015ء کے ایران جوہری معاہدے سے دستبردار ہوا جس نے ملک کے جوہری پروگرام کو منجمند کرنے اور ایران پر جامع پابندیاں عائد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔افغانستان میں سالہا سال سے پھنسے امریکہ کو بخوبی علم ہے کہ ایران کا جغرافیہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جس کو سر کرنے کیلئے واشنگٹن کو ٹریلین ڈالرز کا خرچہ برداشت کرنا پڑے گا۔

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری اور ایران کے خلاف دوبارہ سخت پابندیاں عائد کرنا یہ دو ایسے اقدامات تھے کہ جس سے خطے میں برسہا برس سے جاری کشیدگی کو مزید تقویت ملی۔ٹرمپ کے قلم کی ایک جنبش مشرق وسطیٰ میں ایک تباہ کن علاقائی جنگ کو مزید قریب لے آئی۔سابق امریکی صدر کے بیانات جلتی پر تیل کا کام دیتے رہے ہیں،ٹرمپ انتظامیہ کی جارحانہ اور دباؤ کی حکمت عملی بالکل ناکام ثابت ہوئی۔

امریکہ نے جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران کیخلاف دباؤ کی پالیسی اختیار کی تھی اگرچہ اس پالیسی نے ایرانی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا لیکن اس کے باوجود تہران اپنے موٴقف پر قائم رہا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کی مذموم پالیسی سے اسلامی دنیا میں تقسیم مزید بڑھنے سے خطے میں نئے بلاکس وجود میں آرہے ہیں۔جوبائیڈن کو اس حوالے سے بھی شدید تحفظات ہیں کہ چین اور ایران کے درمیان اسلحے کی تجارت کے لئے یہ معاہدے کئے جا رہے ہیں چین نا صرف ایران کو اسلحہ فروخت کرے گا بلکہ ایران سے عسکری سسٹم بھی خریدے گا اور یہ عمل چین کے لئے منافع بخش ہو گا۔

چین نے خلیج میں امریکی طاقت کا توڑ نکالنے کیلئے اس معاہدے سے اپنے لئے آسانی بھی پیدا کی ہے کیونکہ وہ اجارہ داری توڑنے کیلئے تیل کی سپلائی کے معاملے میں کسی ایک سپلائر پر انحصار نہیں کرنا چاہتا۔ایران ایک نیو کلیئر اسٹیٹ بن کر امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کو عذاب میں مبتلا کرنے کے درپے ہے جس کے لئے وہ مغرب کے بجائے مشرق کی طرف دیکھنے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اپنی علاقائی اور عسکری طاقت کو فروغ دینے کی پالیسیوں پر کاربند ہے۔

2015ء میں ایران اور علامی طاقتوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ ختم ہونا چاہیے تھا یا نہیں بہرحال امریکہ کی دستبرداری سے قیام امن کیلئے کی جانے والی کوششوں کو شدید جھٹکا لگا۔
ایران نے ماضی کی ایٹمی سرگرمیوں کی تفتیش کیلئے عالمی توانائی ایجنسی کے ساتھ روڈ میپ پر بھی دستخط کئے تھے جسے عالمی برادری نے سراہتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ ایران اور گروپ فائیو پلس ون کے درمیان معاہدے سے علاقائی امن و سلامتی پر اچھے اور مثبت اثرات پڑیں گے لیکن ایران اور گروپ فائیو پلس ون کے درمیان ایٹمی مذاکرات کے نتیجے میں پہنچنے کی خبر منظر عام پر آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد امریکی کانگریس میں ووٹنگ پر اثر انداز ہونے کے لئے معاہدے کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان رسہ کشی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔

ایران اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدوں نے جہاں امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا وہیں چین کیلئے مشرق وسطیٰ میں وسیع تر کردار ادا کرنے کی راہ بھی ہموار کی ہے۔چین کا منصوبہ ہے کہ ایران میں متعدد بندرگاہیں تعمیر کی جائیں ان میں سے ایک جسک (Jask) میں تعمیر کی جائے گی جو خلیج ہرمز کے بالکل باہر ہے۔خلیج ہرمز پوری دنیا کی 9 کلیدی سمندری چوکیوں میں سے ایک ہے ان تمام چوکیوں پر امریکہ کا کنٹرول ہے جس کے حوالے سے سیکیورٹی کے بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ پوری دنیا میں امریکی تذویراتی تسلط کا ایک نشان ہیں۔

امریکی صدارتی انتخابات کے بعد اسٹریٹجک منظر نامہ یکسر تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں نے امریکہ کو جس دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے نومنتخب امریکی حکومت اس کے ازالے کیلئے ازسر نو غور کر رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Joe Biden Ki Saudi Arab Ko Tanbeeh is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.