کپڑے کا ماسک‘ سستا اور محفوظ ترین

اس وقت ہر سطح پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ کورونا سے بچنے کا واحد طریقہ احتیاط ہے اور سب سے ضروری احتیاط ہے ماسک پہننا ۔ ڈبیلو ایچ او کی ویب سائٹ پر بھی ماسک پہننے کے فوائد اور خصوصی ہدایت درج ہیں اس کے بعد بھی اگر عوام ماسک نہ پہنے تو اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے

Shazia Anwar شازیہ انوار جمعہ 19 جون 2020

Kapre Ka Mask
اس وقت ہر سطح پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ کورونا سے بچنے کا واحد طریقہ احتیاط ہے اور سب سے ضروری احتیاط ہے ماسک پہننا ۔ ڈبیلو ایچ او کی ویب سائٹ پر بھی ماسک پہننے کے فوائد اور خصوصی ہدایت درج ہیں اس کے بعد بھی اگر عوام ماسک نہ پہنے تو اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ہمیں اس بات کا علم ہے کہ اگر آگ میں ہاتھ ڈالیں تو ہاتھ جل جائیگا اور بہت تکلیف اُٹھانی پڑے گی اسلئے ہم آگ سے دور بھاگتے ہیں۔

کورونا بھی ایک ایسی ہی آگ ہے ‘ یہ سمجھ لیں کہ اگر حفاظتی اقدامات نہیں کریں گے تو یہ آگ نہ صرف آپ کو جلادے گی بلکہ آپ کے پیاروں کو بھی شدید نقصان پہنچائے گی۔
یاد رکھیں کہ اگرآپ میں نوول کورونا وائرس کی علامات پائی جاتی ہیں‘ آپ طبی معالج ہیں اور آپ کے مریضوں میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریض شامل ہیں یا پھر آپ کسی ایسے فرد کے قریب ہیں جس کو نوول کورونا وائرس لگ چکا ہے تو آپ کیلئے ماسک کا استعمال ناگزیر ہے‘ البتہ اگر آپ کے اردگرد یہ وائرس نہیں ہے تو پھر آپ کو ماسک کی ضرورت نہیں ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں بعد ازذکر صورتحال نہیں ہے اسلئے ماسک پہننے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔

(جاری ہے)


عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس ادھانوم گیبریسس نے کچھ روز قبل ایک پریس کانفرنس میں ہدایات جاری کرتے ہوئے کووڈ 19 سے متعلق اپنے رہنماء خط میں تبدیلی کا ذکر کیا اور کہا کہ ایسے علاقوں میں چہرے کے ماسک استعمال کئے جائیں جہاں وائرس پھیل رہا ہے اور سماجی فاصلہ رکھنا مشکل ہے۔یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت نے قبل ازیں کہا تھا کہ یہ ظاہر کرنے کیلئے کوئی ثبوت نہیں ہے کہ صحتمند لوگ ماسک پہن کر انفیکشن سے بچ سکتے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ اب عالمی ادارہ صحت‘ حکومتوں کو مشورہ دے رہا ہے کہ عام لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ عوامی نقل و حمل کے ذرائع اور دکانوں جیسی جگہوں پر جہاں بڑے پیمانے پر وائرس کی منتقلی ہو سکتی ہے اور جسمانی طور پر فاصلہ رکھنا مشکل ہے‘ وہاں وہ ماسک پہنیں لیکن صرف ماسک لوگوں کو وائرس سے نہیں بچائے گا بلکہ جسمانی فاصلہ رکھنے اور ہاتھ اچھی طرح دھونا بھی اہمیت کا حامل ہے۔


قبل ازیں ڈبیلو ایچ او کی جانب سے سرجیکل ماسک پہننے کی تاکید کی جاتی تھی لیکن اب عالمی ادارہ صحت کپڑے کے تین تہوں والے ماسک کو پہننے کی ترغیب دے رہا ہے جسے دھوکر دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس ماسک کے پہننے سے کورونا وائرس کے خطرے سے بڑی حد تک محفوظ رہا جاسکتا ہے۔اس وقت دکانوں اورپتھاروں پر کپڑے کے بنے ماسک نسبتاً مہنگے داموں فروخت کئے جارہے ہیں لیکن یہ ماسک اس وائرس کے سامنے غیر موثر ہیں ۔

طبی ماہرین نے واضح کیا ہے کہ عام کپڑے کے ماسک کا کوئی فائدہ نہیں‘غیر معیاری ماسک کورونا کے خطرات مزید بڑھا رہے ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر کیساتھ معیاری ماسک کے استعمال کے حوالے سے عوام میں بھرپورآگہی مہم چلائے جانے کی ضرورت ہے۔
1960 اور 70 کی دہائیوں میں سائنسدانوں نے یہ دریافت کیا کہ تین تہوں والا ماسک 99 فیصد تک جراثیم کی آلودگی کو کم کرتا ہے۔

ایک سوتی کپڑے کی تین یا چار تہوں سے بننے والا ماسک 99 فیصد تک ذرات کو بلاک کردیتا ہے اس اعتبار سے یہ میڈیکل ماسک جتنا ہی موثر ہوتا ہے۔ امریکی ادارے سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈفیلڈ کا کہنا ہے کہ اس وائرس کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی کہ بعض اوقات ا س کی علامات محسوس نہیں ہوتیں ‘ ایسے افراد وائرس کی منتقلی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن آپ انہیں پہچان نہیں پاتے یہی وجہ ہے کہ بیماری کے دنوں میں فیس ماسک کا استعمال ایک اچھا خیال ہے۔


پوری دنیا سمیت پاکستان کے حکمران‘ وزراء ‘ طبی ماہرین اور سماجی رہنماء بھی عوام کو ماسک پہننے کی ترغیب دیتے ہوئے انہیں اس کی اہمیت سے آگاہ کررہے ہیں ۔ ایک طبقے میں اس حوالے سے حساسیت دیکھی جارہی ہے لیکن بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو آج بھی ماسک کو غیر اہم تصور کررہے ہیں۔ ایک بڑے طبقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے پاس کھانے کیلئے پیسے نہیں ہیں ایسے میں ہم اپنے لئے 40یا50روپے کا ماسک کیسے خریدزسکتے ہیں ‘ جو کسی حد تک درست بھی ہے۔

عوام کی معاشی پریشانی دور کرنے‘ ان کے گھروں میں راشن پہنچانے کیلئے حکومت کے ساتھ مختلف سماجی تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ لوگوں کو انفرادی طور پر بھی لوگوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا جارہا ہے ۔ اگر راشن یا پیسوں کی تقسیم کے ساتھ ماسک کی مفت تقسیم بھی کی جائے تو مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے ۔
 ماسک کا بازاروں میں مناسب قیمت پر دستیاب ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ یہ لوگوں کی قوت خرید میں آسکیں۔

ڈبیلو ایچ او کے قائم کردہ معیار کے مطابق کپڑے کا تین تہوں پر مشتمل ماسک پہنیں۔پاکستان میں اس وقت لوگ ماسک بناکر برآمدبھی کررہے ہیں لیکن بدقسمتی سے عوام کو سستے اور اچھے ماسک کی سہولت حاصل نہیں ہوپارہی۔لوگوں کو ماسک کی اہمیت سمجھتے ہوئے کپڑے کے ماسک لینے چاہئیں جنہیں کم از کم 50بار دھو کر پہنا جاسکتا ہے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جو لوگ اپنے لئے ایک ماسک خریدیں وہ ایک اضافی ماسک خرید کر کسی غریب کو دے دیں ۔

اس طرح سے کسی ایک کے اُوپر بوجھ نہیں آئیگا اور آبادی کی بڑی تعداد ماسک پہن سکے گی۔ میں نے اپنے کسی سابقہ کالم میں یہ تجویز دی تھی کہ اگر ہر آدمی کسی ایک دوسرے آدمی کا خرچہ برداشت کرے تو معاشی مسائل کم نہیں بلکہ” ختم “ہوسکتے ہیں اسی طرح سے جو لوگ ماسک کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس کی قیمت بھی ادا کرسکتے ہیں اگر وہ لوگ اپنے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی ماسک خرید کر دے دیں تو ہم اس موذی مر ض کے تیزی سے پھیلاؤ کے آگے بند باندھ کر خود کو اور دوسروں کو محفوظ کرسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kapre Ka Mask is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 June 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.