خود کشی !

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 5سے 7ہزار لوگ اپنی زندگی کا خود خاتمہ کرتے ہیں ۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر 40سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے اور یہ تعداد کسی بھی جنگ یا قدرتی آفت میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے

Ahmad khan lound احمد خان لنڈ جمعرات 3 اکتوبر 2019

khudkushi !
گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ڈیرہ غازیخان میں خودکشی کرنے والے ڈولفن فورس کے اہلکار کی تصاویر نظر سے گزری۔ایک خوبرونوجوان کی طرف سے انتہائی اقدام پر دل بہت رنجیدہ ہوا اور ساتھ ہی نظر کے سامنے ماضی کے وہ بے شمار منظر کسی فلم کی طرح چلنے لگے اور رہ رہ کر وہ بے شمار لوگ یاد آنے لگے جنھیں ان گنہگار آنکھوں نے ہسپتالوں کے فرش ،ایمرجنسی وارڈ کے میلے کچیلے سٹریچر پر تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھا۔

بندہ کی سماعت میں وہ آہیں ، سسکیاں اور بین کی آوازیں آج بھی محفوظ ہیں جو خودکشی کرنے والے کے بے بس لواحقین کے دل سے اس بے بسی سے نکلتے ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 5سے 7ہزار لوگ اپنی زندگی کا خود خاتمہ کرتے ہیں ۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر 40سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے اور یہ تعداد کسی بھی جنگ یا قدرتی آفت میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

خودکشی کی وجوہات میں سماجی ،معاشی اور گھریلوں مسائل اور عدم برداشت شامل ہے۔خودکشی کرنے والے بیشتر افراد کی عمر 15سے44سال کے درمیان نوٹ کی گئی اور اس میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قدر جانوں کے ضیاع کے باوجود معاشرتی سطح پر اس کے سدباب کے لیے کیا کیا گیاہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں خودکشیوں کے حوالے سے مرتب کی گئی پہلی رپورٹ میں ان اموات کا ذمہ دار میڈیا کو قرار دیا گیا ،جہاں سیلیبریٹیز کی اموات کو کوریج دینے سے مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔

یہ بات مزید خوفناک ہے کہ دنیا بھر میں 29-15سال کے درمیان ہونے والی اموات کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان کیوں خودکشی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ ڈیل کارنیگی نے اس حوالے سے سب سے اہم نظریہ پیش کیا ہے۔ڈیل کارنیگی کے نظریے کے مطابق انسان پر جذبات کا اثر ہمیشہ موجود رہتا ہے لیکن وہ انجام صرف اس کام کودیتا جس کے جذبات حاوی ہوجاتے ہیں۔

ڈیل کارنیگی کی منظق کے مطابق ایک شخص ایک ہی وقت میں کتاب بھی پڑھنا چاہتا ہے،وہ کھانا بھی کھانا چاہتا ہے،وہ کسی سے ملنے کے لیے باہر بھی جانا چاہتا ہے،وہ کسی کو مارنا بھی چاہتا ہے یا وہ خود کو ختم بھی کرنا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ شخص وہ کام ہی انجام دے پائے گا جس کام کے جذبات کا غلبہ زیادہ ہوگا۔بالکل اسی طرح خود کو ختم کرنے اور ہرحال میں زندہ رہنے کا جزبہ بھی ہمیشہ انسان کے حواس پر موجود رہتا ہے ۔

اگر خود کو ختم کرنے کا جذبہ زندہ رہنے کے جذبے پر حاوی ہو جائے تو انسان تب خودکشی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔
خودکشی کو روکنے کے لیے لمبے چوڑے وعظ ،کانفرنسیں ،اور میٹنگ کرنے کی بجائے اگر اس زندہ رہنے کے جذبے کی آبیاری کی جائے توبلا شبہ خودکشی کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہماری زندگی کی ایک خوفناک حقیقت ہے کہ ہم سے ہر شخص زندگی میں کبھی نہ کبھی خودکشی کے بارے میں ضرور سیکھتا ہے۔

خودکشی کو روکنے کے ہمیں معاشرے میں نفرادی طور اس کے سد باب کے لیے کام کرنا ہوگا۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل کو یہ احساس دلانا ہوگاکہ دنیا کی سب سے قیمتی شے ان کی جان ہے اور ہمیں خود کو ہر حال میں زندہ رکھنا ہے۔خود کو زندہ رکھنے کی چاہ میں ہی انسان جنگلوں سے نکل کر اس جدید دور تک آیا،لیکن مایوسی اور عدم برداشت کی بدولت آج انسان اس زندہ رہنے کی چاہ سے محروم ہونے پر تُلا ہوا ہے۔

خودکشی کو ختم کرنے کے لیے کام کا آغاز ہم انفرادی طور پر بچوں کی ابتدائی تعلیم سے ہی کر سکتے ہیں۔پرائمری جماعت سے اوپر طلباء و طالبات کو روز اول سے خودکشی کے حرام ہونے کے متعلق آگاہ کیا جائے،ابتداء سے ہی طلباء و طالبات کے ذہن میں خودکشی کے خلاف ایسا زہر پیدا کیا جائے کہ وہ خودکشی کا لفظ سننے سے بھی نفرت کرنے لگیں۔میں آج عہد کرتا ہوں کہ زندگی میں دستیاب ہر پلیٹ فارم سے خودکشی کے سدباب کے لیے کام کرونگا ۔

آئیں ہم سب مل کر عہد کرتے ہیں کہ اپنے معصوم لوگوں کو خود کشی کی لعنت سے بچانے کے لیے اس پر بات کریں گیں۔سکولوں میں کالجو ں میں ورکشاپوں میں مدرسوں میں ،بازاروں میں ،اپنے بڑوں سے ،اپنے چھوٹوں سے ،اپنے بھائیوں سے ،اپنی بہنوں سے ،اپنی ماؤں سے ،اپنے رشتہ داروں سے ،عزیزوں سے اس پر بھرپور بات کریں گیں اور اس حرام موت کو حرام موت کی مانند ہی معاشرے سے ختم کر دینگے ۔

آج اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو، آج کو اپنی جان لینے والے کل کو ہمارے جانیں بھی لے لیں گیں اور پھر ہمار پاس بے بسی اورمایوسی کے سوا شاید اور کچھ بھی باقی نہ رہے گااور ہم دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی برباد کر بیٹھے گیں۔بقول شاعر عرش #ملسیانی:
 وہ مرد نہیں جو ڈر جائے ماحول کے خونی منظر سے
 اس حال میں جینا لازم ہے ، جس حال میں جینا مشکل ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

khudkushi ! is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 October 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.