کلچرل ڈائیورسٹی یاثقافتی تنوع ملک کو درپیش چیلنجز میں ایک اہم چیلنج ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلچرل ڈائیورسٹی کا ترقی کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ ثقافتی تنوع سے امن کیسے آسکتا ہے ؟ برداشت و سماجی ہم آہنگی آگے بڑھنے کے لئے کتنی ضروری ہے ؟ اگر ہم نے معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے تو اس کا طریقہ کیا ہے ؟ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھنے کی وجہ کیا ہے ؟ ہم ایک دوسرے کے مذہب، نظریات ،کلچر ،سوچ کو برداشت کرنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہیں ؟ ٹالرنس (برداشت ) کا مطلب کیا ہے ؟ برداشت وسماجی آہنگی والے معاشرے کیسے ہوتے ہیں ؟
ڈائیورسٹی کے معاشرے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں مختلف مذاہب ،رنگ ،نسل ،برادری وخیالات رکھنے والے لوگ اکٹھے رہتے ہیں وہ ایک دوسرے کے نظریات کوبرداشت کرتے ہیں انہیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ سماجی ہم آہنگی کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار بھی اداکرتے ہیں۔
(جاری ہے)
بدقسمتی سے ہم اخلاقی ،سیاسی ،سماجی ومعاشی طور پر بحرانوں کا شکار ہیں اس کی بڑی وجہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور عدم برداشت کا رویہ بھی ہے ۔ہم نوجوانوں میں عدم برداشت کی بات کرتے ہیں مگر ہمارے بڑوں میں بھی برداشت کم ہے جو بچوں میں منتقل ہورہی ہے ۔انفرادی وقومی سطح پر اس کی سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔ہمیں انتہا پسندی ودہشت گردی کے مسائل کا سامناہے ان مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمیں معاشرے میں شاعری ،ادب ،ڈرامہ ،میوزک ودیگر آرٹ پر مبنی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہئے مگر اس معاملے کی طرف ارباب اختیار واقتدار ،پالیسی سازون ،سول سوسائیٹی ،میڈیا کا دھیان کیوں نہیں ہے ؟ ملک میں ڈائیلاگ یا مکالمہ کا کلچر کیوں پروان نہیں چڑھ سکا؟ اسکی وجوہات وتدارک کے لئے ریاست وسول سوسائٹی کے لوگوں نے اپنا کردار کیوں ادا نہیں کیا ؟ ہم سوشل برین کیوں ڈویلپ نہیں کرسکے ؟برطانیہ کے معروف ماہر نفسیات رچرڈ کرسپ نے اپنی کتاب ”سوشل برین ،جدید ذہن کی نشوونما میں تنوع کا کردار“(The social Brain,How diversity made the modern mind) میں سوال اٹھایا ہے کہ تہذیبوں میں تصادم کوناگزیر کیوں سمجھا جارہاہے ؟کیا تنوع واقع اس کا سبب ہے؟ کیا تصادم وجنگ وجدال انسان کی فطری خصوصیت ہے ؟ کیا انسان فطری طور پر خونخوار و جنگجو ہے ؟ کیاامن اور مل جل کر رہنے کی کوششیں اسی لیئے کامیاب نہیں ہوتیں ؟ امن انسان کے نصیب میں کیوں نہیں ؟ تنوع و اختلاف اکیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ؟ ۔
پروفیسرکرسپ جو نفسیات کے میدان میں انسانی معاشرتی رویوں خصوصا تعصب کی نفسیات اورا س کی اصلاح پر اہم تحقیقات کی وجہ سے معروف ہیں ان کے مطابق تنوع کا خوف نفسیاتی مسئلہ ہے ۔خوف کی نفسیاتی تحلیل کے لئے انہوں نے سگمنڈ فرائیڈ کے طریقے کوآگے بڑھایا ۔فرائیڈ نفسیاتی امراض کی تشخیص کے لئے مریض کے بچپن کے حالات کا تجزیہ کرتے تھے ۔بچپن میں پیش آئے حادثات اور واقعات انسانی ذہن پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں یا یوں کہئے کے ذہن بناتے ہیں ۔
دبی خواہشات لاشعور میں جگہ بنالیتی ہیں ،محبت ،نفرت ،طیش اور انتقام کے رویے انہی یادوں سے تشکیل پاتے ہیں ۔پروفیسر کرسپ کا کہنا ہے کہ فرد کی طرح معاشرے کا بھی ذہن ہوتا ہے جسے وہ سوشل برین کا نام دیتا ہے۔ انسان کے معاشرتی رویے اسی سماجی ذہن کے تابع تشکیل پاتے ہیں ۔کرسپ ان سینکڑوں فلسفیوں اور سیموئل ہننگٹن اور ایسے سینکڑوں مفکرین سے اختلاف کرتے ہیں جو تصادم اور جنگوں کو فطری اور ناگزیر سمجھتے ہیں ۔
زندگی کا اصل اصول امن ہے جنگ نہیں ۔سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے بھی امن و تنوع بہت ضروری ہے کرسپ لکھتے ہیں ” تنوع ”ڈائیورسٹی “ کے خلاف آج کی سیاست میں یہ تضاد پایا جاتا ہے کہ ہم آج جس تنوع کی ہر شکل سے بریت کا اظہار کررہے ہیں ،ماضی میں اس تنوع نے ہماری بقا میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور یہی تنوع مستقبل میں کامیابی کی کلید بھی ہے ۔
اسی تضاد کا سبب سماجی دماغ کے دو کرداروں سے لاعلمی ہے۔ایک کردار حفاظت اور سلامتی کویقینی بنانا ہے اور دوسرا نئی دریافت وترقی کے امکانات کی عملی تشکیل کا ضامن ہے ۔ایک مقابلے اور مسابقت میں مدد دیتا ہے ،دوسرا تعاون اور امداد باہمی میں پہلا جبلی ہے ،کسی تیاری کی ضرورت نہیں ،دوسرا پیچیدہ ہے ،منصوبہ بندی چاہتا ہے۔
میرااستدلال یہ ہے کہ معاشرتی ترقی اور درپیش مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے سماجی دماغ کے اس کردار کی صلاحیت بڑھانا لازمی ہے جو تعاون ،دریافت اور رابطوں کے کام میں مدد دیتا ہے ۔
ترقی، ایجاد اور تسخیر کے انسانی امکانات کا انحصار سماجی دماغ کے اسی کردار پر ہے لیکن جدید علم نفسیات اس کی طرف ابھی تک توجہ نہیں دے پائی ۔تنوع محض اخلاقی یا سماجی تقاضا نہیں ،یہ اقتصادی و سماجی ترقی کی ارتقائی شرط بھی ہے “۔پروفیسر کرسپ تو اقتصادی وسماجی ترقی کے ارتقا کے لئے ثقافتی تنوع کو بنیادی عنصر قرار دیتے ہیں ۔ولیم جیمز (William James)نے تکثیریت ) Pluralism (کا نفسیاتی وفلسفیانہ تجزیہ کیا اور انسانی زندگی کے معانی کووسعت دی ۔
تکثیریت سماج کی ایسی خاصیت ہے جہاں متنوع سماجی گروہ کے لوگ اپنی روایتی ثقافتوں اور مفادات کا فروغ و تحفظ ایک مشترک تہذیب کے اندر رہتے ہوئے کرتے ہیں ۔ویلیم جیمز کے بعد سماجی سائنسدانوں اور مفکروں نے محسوس کیا کہ جدید تکثیری دنیامعاشرے ،حکومت ،معیشت ،مذہبی خیالات اور خود انسانوں میں نمایاں تبدیلیوں کا تقاضاکرتی ہے ۔
ڈینئل لرنرکی کتاب The passing of Traditional Society میں تھیسز تھا کہ دنیا ایک unilinear کی طرف گامزن ہے ۔
ایک صراط مستقیم پر سیدھی لکیر میں پوائنٹ اے سے پوائنٹ بی کی طرف رواں ہے۔پوائنٹ اے ہے روایت اور پوائنٹ بی ہے جدیدیت اور پوری دنیا اس سفر میں ہے کہ پوائنٹ اے سے پوائنٹ بی تک کیسے پہنچے ۔اس کا کہنا یہ تھا کہ روایت سے جدیدیت کے سفر کی نشاندہی سب سے پہلے امریکہ نے کی ہے اور امریکہ نے جدیدیت کا ماڈل تیار کرلیا ہے جس کی نقل کرنے کے لئے ساری دنیا بے تاب ہے ۔
اس کا کہنا تھاکہ اس پراسیس ،جسے وہ ،Mass Communication ,Development of Education, Industralization , Urbanization ، secularization کہتا تھا ان سب کے کے نتیجہ میں مذہب کو پبلک لائف سے نکال دیا جائے گا۔
ایک دفعہ فیڈل کاسترو سے پوچھا گیا کہ اگر آپ دوبارہ انقلاب لائیں گے تو کیا کریں گے ؟ کیاغلطیاں ہوئیں جو دوبارہ نہیں کریں گے ؟ اس کے جواب میں ہمارے لئے بہت سبق ہیں اس نے کہاتھا کہ میں نے اپنا سارا ہیومن ریسورس بھگادیا ،مجھے ان لوگوں کوڈویلپ کرنے میں 25 برس لگے ۔
ہمیں بھی آج اپنے ہیومن ریسور س کو ڈویلپ کرناہوگا تاکہ ہم موجودہ صدی کے چیلنجزسے نبردآزما ہونے والی نسل تیارکرسکیں ۔تحمل مزاجی ،رواداری ،برداشت،انصاف وعفوودرگزر ایک مثالی معاشرے کی وہ خوبیاں ہیں جن پر ایک مثالی معاشرے کی بنیاد قائم ہوتی ہیں اگر معاشرے میں یہ خوبیاں نہ ہوتو منفی رجحانات کوپنپنے کاموقع ملتا ہے اور پھر وہاں شدت پسندی ،تشدد،لاقانونیت ،عدم برداشت ودیگر برائیاں پھیلتی ہیں جن سے شدید نقصان ہوتا ہے جو ہمیں ہورہاہے ۔
ثقافتی تنوع میں ہی اس جہاں کا اصل حسن پوشیدہ ہے ۔۔
ثقافت کسی بھی معاشرے کے لئے اخلاقی ومعاشرتی رسوم ،علوم وفنون ،عقائد و افکار کے مجموعہ کوہی ثقافت کہاجاتاہے ۔پیار ،امن ،خلوص اور رواداری کے جذبے میں ہی اصل طاقت ہے اور یہی ثقافتی تنوع کی خوبصورتی جو دنیاکے سب انسانوں کی برابری کا خواب دیکھتی ہے ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فروغ امن کے لئے ریاستوں کو آٹھ اقدامات کرنے کی تلقین کی ہے ان میں سب سے پہلے تعلیم کے ذریعے امن کوفروغ دینا ،دوسراپائیدار اقتصادی و سماجی ترقی کوفروغ دینا ،تیسراتمام انسانی حقوق کے احترام کوفروغ دینا ،چوتھاخواتین اور مردوں کے درمیان مساوات کویقینی بنانا ،پانچواں جمہوریت کی شراکت میں اضافہ ،چھٹا تفہیم ،رواداری اور یکجہتی کی ترقی ،ساتواں شرکاء مواصلات کی حمایت ،معلومات اور علم کے مفت بہاؤ کے فروغ کے لئے کوشش کرنا،آٹھواں بین الاقوامی امن و سلامتی کوفروغ دینا شامل ہیں ۔
ہمیں اقوام متحدہ کی گائیڈ لائین کی روشنی میں ان اقدامات کویقینی بناناچاہئے کیونکہ اس وقت ملک میں سماجی ہم آہنگی کی ضرورت ہے ۔ہمیں ملک میں امن وترقی کے ایجنڈے کوپھیلانے کی ضرورت ہے اور ایک نئے بیانیے کوفروغ دیناہوگا جو ہر طرح کی انتہاپسندی کے خلاف ہو۔اس کے لئے ہمیں ایک مارل تھنک ٹینک (Moral Think Thank)بناناہوگا جس میں سوشیالوجسٹ ،ڈاکٹرز، انجئینرز، سکالرز ، میڈیا،سول سوسائٹی ،مختلف مذاہب ومکاتب فکر کے علماو دیگر اسٹیک ہولڈرز کوشامل کرنا ہوگا تاکہ ان کی تجاویز کے مطابق پالیسیاں بنائی جائیں ان پالیسیوں پر عمل کے نتیجہ میں معاشرے میں توازن قائم ہوسکے ۔
ہمیں جمہوری اداروں کو مضبوط بناناہوگا تاکہ ثقافتی مکالمت فروغ پاسکے ۔ترقی کی منزل طے کرنے کے لئے ہمیں دین ،زبان اور نسل کی تفریق کے بغیر باہمی رنگارنگی کوایک ثقافتی تنوع کے طور پر قبول کرناہوگا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔