کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے

امریکہ اور چین کے تنازعات سب کے سامنے ہیں ایک سپر پاور اور اس کے ایک تیزی سے بڑھتے ہوئے حریف کے اثر کو کم کرنے کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے اس تنازعہ کا دائرہ ٹریڈ وار سے لے کر جنوبی چائنا کے سمندر اور 5Gانٹر نیٹ کے تنازعات تک ہے بائیو کیمیکل سے متعلق امریکن کمیشن کے سابق ممبران کا دعوی ہے کہ ان سے چائنیزدوستوں نے رابطہ کیا تھا جو یہ سمجھتے ہیں یہ وائرس انسانی تخلیق ہے

Mrs Jamshaid Khakwani مسز جمشید خاکوانی بدھ 12 فروری 2020

kya aisa bhi ho sakta hai
کرونا وائرس کے بارے میں چائنا میں حالات شائد سنبھل نہیں رہے ابھی تک ایک ہزار کے قریب لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اس سلسلے میں سینئر ترین حکام کی بھی چھٹی کرائی جا رہی ہے مقامی ریڈ کراس کے ڈپٹی ڈائریکٹرکو بھی عطیات کے بروقت انتظام اور اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے پر فارغ کیا جا چکا ہے وبائی ہیلتھ کمیشن کے پارٹی سیکرٹری اور کمیشن کے سربراہکا شمار بھی فارغ کیے جانے والے سینئر ترین حکام میں ہوتا ہے لیکن قومی سطع پر انفیکشن کا شکار ہونے والوں میں بیس فیصد کمی ہوئی ہے چین ہمارا دوست ملک ہے ہماری جوامپورٹس چائنا سے ہوتی ہیں ان میں بڑا حصہ سمارٹ فونز اور آٹو پارٹس کا ہے اس کے علاوہ الیکٹرونکس بھی پاکستان چائنا سے امپورٹ کرتا ہے ظاہر سی بات ہے اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا ۔


ووہان جو وائرس کا شکار ہے اس کا مجموعی طور پر چائنا کی معیشت میں جو کنٹری بیوشن ہے وہ فور پوائنٹ فائیو پرسینٹ ہے ووہان شہر کی بڑی صنعتوں میں گاڑیوں کی صنعت ،ٹیکسٹائل ،لوہا،پیٹروکیمیکلز،الیکٹرونکس،فوڈ پروسیسیسنگاور مینو فیکچرنگ بھی شامل ہیں چائینیز اکانومی کا حجم جو تقریبا چودہ ٹریلین ڈالر ہے اور اس کا عالمی معیشت میں حصہ سولہ فیصد ہے اور یہ سولہ فیصد انتہائی اہم مصنوعات پر مشتمل ہے لیکن اس وائرس نے چائنا کی معیشت میں بڑا ڈینٹ ڈال دیا ہے چاہے ایک دو ماہ میں یہ وبا کنٹرول ہو بھی جائے ایک رپورٹ سوشل میڈیا پر پڑھنے کو ملی جس کے مطابق چین نے کرونا وائرس پھیلانے کا الزام امریکہ پر لگا دیا ہے اس میں کہاں تک صداقت ہے یہ تو نہیں معلوم لیکن روسی سائنسدانوں نے بھی چین کے اس دعوے کی تصدیق کر دی ہے۔

(جاری ہے)

چائنا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ امریکہ کا ایک خوفناک بائیولوجیکل حملہ تھاجس نے چین کو پوری دنیا میں تنہا کر دیا ہے اور چین کو ٹریلین ڈالرزکا نقصان ہوا پوری دنیا نے چینی مصنوعات درامد کرنے پر پابندی لگا دی اور امریکہ کی یہی خواہش تھی کہ چین کو معاشی طور پر کمزور کر دے دوسری طرف روسی سائنسدانوں کا خیال ہے یہ ایک امریکی سازش تھی جس کا مقصد چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کو روکنا اور وائرس کے پھیلاؤ کے بعد اربوں ڈالرز کی ویکسین بیچ کر پیسہ کمانا ہے چینی سائنسدانوں نے دعوی کیا ہے امریکی لیبارتریز میں اس وائرس کو تخلیق کیا گیا ہے اور وہیں اس کو ایک بائیو لوجیکل ویپن کی شکل دی گئی ہے اور امریکی ڈپلومیٹک عملے کے ذریعے یہ وائرس چین تک پہنچایا گیا ہے روسی خبررساں ایجنسی نے کہا ہے کہ امریکہ نے یہ وائرس چین میں پھیلا کراس کا ٹیسٹ کیا ہے اور امریکی فارما سسٹس کو راتوں رات اربوں ڈالرز کمانے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔

برسوں پہلے میں نے کہیں پڑھا تھا کہ امریکا ایسے ہتھیار بنا رہا ہے جن سے انسان تو مریں گے مگر عمارتیں محفوظ رہیں گی کیونہ میزائل اور بموں سے انسان مرتے ہیں زخمی بھی ہوتے ہیں لیکن عمارتیں بالکل تباہ ہو جاتی ہیں شہر کے شہر کھنڈر بن جاتے ہیں خوراک کے ذخائر بھی متاثر ہوتے ہیں قحط کا ماحول بن جاتا ہے ہو سکتا ہے امریکہ نے یہ ہتھیار استعمال کیا ہو 2005میں پاکستان میں جو تباہ کن زلزلہ آیا تھا تب بھی یہ بازگشت سنائی دی تھی کہ امریکہ نے ہارپ ٹیکنالوجی یوز کی ہے ۔

امریکہ اور چین کے تنازعات سب کے سامنے ہیں ایک سپر پاور اور اس کے ایک تیزی سے بڑھتے ہوئے حریف کے اثر کو کم کرنے کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے اس تنازعہ کا دائرہ ٹریڈ وار سے لے کر جنوبی چائنا کے سمندر اور 5Gانٹر نیٹ کے تنازعات تک ہے بائیو کیمیکل سے متعلق امریکن کمیشن کے سابق ممبران کا دعوی ہے کہ ان سے چائنیزدوستوں نے رابطہ کیا تھا جو یہ سمجھتے ہیں یہ وائرس انسانی تخلیق ہے ان میں سے ایک کا خیال ہے کہ اس وائرس اٹیک کے لیے ووہان شہر کو اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ یہ شہر چائنا کے بالکل سینٹر میں ہے اور یہ مرکزی ٹرانسپوٹیشن حب ہے اور یہ ٹائم اس لیے چنا گیا کہ چائنیز کا نیا سال آنے والا تھا اور سالانہ چھٹیاں بھی پڑنے والی تھیں اور ایسے موقعے پر پورے ملک سے لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر چھٹیاں منانے کے لیے ٹریول کرتے ہیں اور لاکھوں لوگ اس شہر کو وزٹ کرتے ہیں اور یہاں سے بیرون ملک بھی سفر کرتے ہیں۔

اور یہ امریکی لیبارٹریز کے لیے بھی دولت کمانے کا اچھا موقع ہے اس وقت امریکہ وہ واحد ملک ہے جس کے پاس 400فوجی بائیو لیبارٹریز ہیں جو کہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں یہ روس کے آس پاس بھی ہیں اس کے علاوہ چائنا ،ملائیشیا اور فلپائن کے آس پاس بھی ہیں اور شائد ہی کوئی ایسی جگہ ہو جو امریکہ کی پہنچ سے دور ہو چائنا میں تو بڑی تعداد میں لوگوں نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا ہے لیکن گلوبل ٹائمز کے مطابق زیادہ تر لوگ اس بات پر یقین نہیں رکھتے جبکہ روس نے اپنی مشرقی سرحد کو مکمل بند کر دیا ہے تاکہ وائرس کو روس سے دور رکھا جا سکے چین اور روس کے درمیان 25سرحدی کراسنگ ہیں یہ تمام 21جنوری کو بند کر دی گئیں تھیں اس کے باوجود بھی روس میں دو کیس رپورٹ ہو چکے ہیں اور یہ متاثرہ افراد چائینیز تھے۔

اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس بیماری سے متاثر ہو چکے ہیں اور سینکڑوں ہلاک ہو چکے ہیں اور نئے کیسز بھی تواتر سے سامنے آ رہے ہیں ،مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی مغربی ملک اس سے متاثر نہیں البتہ برطانیہ میں آٹھ لوگ متاثر ہو چکے ہیں ،اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے (آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kya aisa bhi ho sakta hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 February 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.