
محاذ آرائی اور کشیدگی کاذمہ دار کون؟
سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت کی طرف سے دانش مندی اور سیاسی تدبر سے کام لیا جاتا تو پی ٹی آئی کی طرف سے 31اگست سے پہلے تک کے مذاکرات میں طے پانے والے نکات سے اس کا سلسلہ دوبارہ اسی جگہ سے بحال ہوسکتا تھا
جمعہ 12 دسمبر 2014

تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاجی مہم کے ”پلان سی“ کے پہلے مرحلے کے لئے عمران خان نے 8دسمبر کو فیصل آباد کو بند کرنے کی کال دے رکھی تھی۔ عمران خان کی طرف سے یہ بات کہی گئی تھی کہ ان کی پارٹی شہر کے بعض داخلی راستوں کو بند کر کے رہے گی لیکن مسلم لیگ (ن) کے بعض لیڈروں نے بھی اس کال کو مکمل ناکام بنا نے تہیہ کررکھا تھا۔ جنہوں نے آٹھ بازاروں کے اندر دکانوں کو کھولنے کیلئے 7دسمبر کو ہی مسلم چوک گھنٹہ گھر اور آٹھ بازاروں میں اپنی سٹریٹ پاور کا مظاہر شروع کردیا تھا۔ 7دسمبر کی شام کو فیصل آباد شہر کی فضا میں پیدا ہونے والی سیاسی تلخی ہی سے اگلے روز کا ماحول واضح ہوگیا تھا۔ دانشمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت پارٹی کے کارکنوں کو گھروں سے نکلنے میں روک دیا جاتا۔
(جاری ہے)
چونکہ حق نواز کے جاں بحق ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں نے نعش رانا ثناء اللہ خاں کے ڈیرے کی طرف لے جانے کی کوشش کی تھی اس سے کشیدگی مزید بڑھ گئی اور پی ٹی آئی کے لیڈروں کے دباؤ پر جاں بحق ہونے والے سیاسی کارکن حق نواز کے بڑے بھائی مسٹر عطاء اللہ کی مدعیت میں جو ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے اس میں رانا ثناء اللہ خان، ان کے داماد شہریار خان اور داماد کے سیکورٹی اہلکار کے علاوہ وزیر مملکت چوہدری عابد شیر علی، ڈی سی اور نور الامین مینگل اور 300سے زائد دیگر لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ رانا ثناء اللہ خان اور چوہدری عابد شیر علی دونوں کسی بھی سیاسی کارکن کے قتل میں مشترکہ طور پر منصوبہ ساز نہیں ہوسکتے۔ ان میں سے زیادہ سے زیادہ کسی ایک کو ایف آئی آر میں نامزد کرایا جاسکتا ہے اور ڈی سی او نورالامین مینگل کو بھی حق نواز کے قتل میں ملوث قرار دینے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ جس طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کی تنظیم نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر میں وزیراعظم میاں نواز شریف اور دیگر وفاقی وزیروں کو زیر دفعہ 109ت۔پ ملزموں میں شامل کر کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کو الجھا کر اس مقدمے کو خراب کیا ہے۔ یہی کچھ حق نساز کے قتل کی ایف آئی آر لکھوانے میں کیا گیا ہے۔ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر میں پنجاب حکومت کے ذمہ داران کے ساتھ چند پولیس افسروں کو نامزد کردیا جاتا تو آج تک اس کی تفتیش کسی ٹھکانے لگ چکی ہوتی۔ اصولاََ تو حق نواز کے قتل کی ایف آئی آر اس نامعلوم شخص تک ہی محدود رہنی چاہئے تھی جس کو گولیاں چلاتے ویڈیو میں پورے ملک کے لوگوں نے دیکھا ہے۔ اس کی تصدیق بھی بعد میں پستول برآمد ہونے اور لگنے والی گولی کے تجزیے پر ہوجاتی، یا زیادہ سے زیادہ اس ایف آئی آر میں رانا ثناء اللہ خان کے سیاسی ڈیرے کی نشاندہی کی جاسکتی تھی۔ لیکن ہمارے ہاں سیاسی نعش کو اپنے سیاسی مخالفوں خے خلاف ہتھیار بنا کر انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش میں سیاسی مقدمہ خراب کردیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک میں جاری سیاسی مخاصمت میں بہت کچھ خراب ہورہا ہے۔ متحارب سیاسی قوتیں عوامی مفادات کے تحفظ کے نام پرعوام کو بے یقینی کی خطرناک کیفیت میں دھکیل رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کا الزام اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے۔ عمران خان کا یہ موقف بھی ناقابل فہم نہیں ہے کہ انہیں الیکشن کمیشن، پارلیمان اور عدالتوں سے انصاف نہ ملن کے بعد انہوں نے سڑکوں پر نکلنے اور دھرنے کے کنٹینر پر حکمرانوں کے خلاف سیاسی محاض کھولنے کی راہ اختیار کی ہے لیکن ملک کے مقتدر سیاسی و عوامی حلقوں کے نزدیک یہ سیاسی انداز ہر گز پسندیدہ نہیں ہے۔ کئی ماہ سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں ان کے دھرنے کا کنٹینر حکمرانوں کے خلاف ہر زہ سرائی کررہا ہے اور وہ پارلیمان کے علاوہ عدالتوں تک سے انصاف نہ ملنے کی دہائی دے کر اپنی پارٹی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو ملک کی پارلیمانی سیاست سے باہر رکھے ہوئے ہیں۔ اسمبلیوں سے پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفے منظور نہ کرنے کی حد تک حکمران جماعت نے نہایت دانشمندی سے ملک میں مڈٹرم انتخابات کا راستہ بند کررکھا ہے۔ لیکن عمران کان نے جب سے وزیراعظم کے استعفے کی شرف سے دستبرداری اختیار کی ہے اور حکومت کو خود مختار جوڈیشل کمیشن کے تقرر اور تحقیقات کیلئے بنائی جانے والی ٹیم میں ایک دو فوجی ایجنسیوں نے نمائندوں کو شامل کرنے کی حد لگائی ہے، حکومت کو اس مطالبے کی منظوری کو پی ٹی آئی کی اسمبلیوں میں واپسی سے مشروط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ وفاقی وزیر خذانہ اسحاق ڈار کی طرف سے ایک مرحلے پر تو یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وہ 7دسمبر کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہتے ہیں اور پھر سیاسی عدم رواداری کا جو مظاہرہ کیا گیا اس پر وزیر خذانہ یہ کہنے پرمجبور ہوگئے کہ مذاکرات اب 8دسمبر کے بعد سیاسی صورت حال کے مطابق ہی کئے جائیں گے۔ بلاشبہ 7دسمبر کے واقعہ نے سیاسی ماحول میں سوگ اور تلخی کی کیفیت بھر دی ہے۔
اس وقت وزیراعظم میان نواز شریف نے پی ٹی آئی کو فوری طور پر مذاکرات کی دعوت دے دی ہے۔ عمران خان کو اب فیصل آباد کے جاں بحق ہونے والے اپنے کارکن حق نواز کی نعش پر سیاست کرنے کی بجائے حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرلینا چاہئے کیونکہ اس وقت ملک میں جو سیاسی بحران پیدا ہوچکا ہے اگر اس کو سیاسی انداز میں حل نہ کیا گیا تو جیسا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہاہے کہ کشتیاں ساحل کے قریب بھی ڈوب جایا کرتی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت کی طرف سے دانش مندی اور سیاسی تدبر سے کام لیا جاتا تو پی ٹی آئی کی طرف سے 31اگست سے پہلے تک کے مذاکرات میں طے پانے والے نکات سے اس کا سلسلہ دوبارہ اسی جگہ سے بحال ہوسکتا تھا۔ اور اگر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی میز پر بٹھا لیا جاتا تو اس سے اول تو تحریک انصاف فیصل آباد کو بند کرنے کی کال واپس لے لیتی اور اگر تحریک انصاف کی طرف سے یہ کال واپس نہ بھی لی جاتی تو اس سے اس کا کی شدت بہت حد تک کم کی جاسکتی تھی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Mahaz Arai Or Kashedgi Ka Zimedar Kon is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 December 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.