ماری کیوری(1867ء تا 1934ء)

طبیعیات اور کیمیا میں دونوبیل انعامات حاصل کرنیو الی واحد عورت ماری کیوری ریڈتاب کاری اور ریڈیم پراپنی تحقیق کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ ریڈیم نامی عنصراُسی کی دریافت ہے۔

پیر 18 جنوری 2016

Marrie Curie 1867 to 1934
طبیعیات اور کیمیا میں دونوبیل انعامات حاصل کرنیو الی واحد عورت ماری کیوری ریڈتاب کاری اور ریڈیم پراپنی تحقیق کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ ریڈیم نامی عنصراُسی کی دریافت ہے۔ اس نے تحقیق کاآغاز اپنے شوہر پیئرے کے ساتھ مل کرکیااور 1906ء میں اُس کی وفات کے بعد بھی تحقیق کاسلسلہ جاری رکھ کر طبیعیات کاایک پورانیاشعبہ قائم کیا۔ اُس نے ایٹم کی اندرونی ساخت جاننے کاطریقہ بھی وضع کیا۔

اگر بیسویں صدی کی سائنس کوایٹم کی تحقیق پرمبنی سائنس قرار دیاجاتاہے توبلاشبہ اس میں ماری کیوری کابڑا ہاتھ تھا۔ وہ دنیاکی مشہور ترین سائنس دان بنی: تاہم ، اُس کے دوست البرٹ آئن سٹائن نے ایک بار کہا تھا: ماری کیوری تمام مشہور ہستیوں میں سے واحد ایسی ہستی ہے جس کی شہرت داغ دارنہیں ہوئی۔

(جاری ہے)

ماری کیوری وارسا، پولینڈمیں پیداہوئی۔ ماں باپ نے اُس کانام ماریاسکلودووسکارکھا۔

وہ چار بہنوں اور ایک بھائی سے چھوٹی تھی۔ اُس کابچپن روسیوں کی سخت حکومت کے دورہ میں گزراجو اُس کے ملک پر قابض تھے۔ اُس کاباپ ولادی سلاف فزکس کاپروفیسر تھا۔ جب تعلیمی عہدے روسیوں نے سنبھال لیے تو اُسے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے اور کنبے نے ماری کی ماں کے بوردنگ سکول میں رہائش اختیار کرلی۔ بعدمیں ماری کاباپ بورڈنگ میں رہنے والے بچوں کوہی ٹیوشن پڑھانے لگا۔

Sklodowskasخاندان اپنی بیٹیوں کی تعلیم کازبردست حامی تھا، اور روسی دورحکومت میں سکول جانے کے شدید ذہنی دباؤ کے باوجود ماری نے تعلیمی میدان میں اعلیٰ کارکردگی کامظاہرہ کیا۔ چونکہ روسی حکومت نے عورتوں کایونیورسٹی میں داخلہ ممنوع قراردے رکھا تھااور سکلودووسکاخاندان زیادہ امیرنہیں تھا، اس لیے ماری پیرس میں میڈیکل سکول کے ذریعہ اپنی بہن کی مدد کرنے پر تیارہوگئی۔

معاہدے کے تحت برونیاکوماری کی مددکرنا تھی۔ ماری نے آئندہ چھ برس ایک امیرکبیرلیکن عقلی اعتبار سے تنگ نظر خاندان میں گورنس کی حیثیت سے گزارے۔ ماری کے بقول وہ خاندان” عمیق ترین جماقت میں ڈوبا ہوا تھا۔ 1891ء میں ماری آخرکار پیرس پہنچی اور Sorbonneیونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یہ یورپ کی چندایسی یونیورسٹیوں میں سے ایک تھی جہاں عورتوں کوبھی سائنس پڑھنے کی اجازت تھی۔

وہ اکیلی رہی اور روٹی، پھلوں اور گرم چاکلیٹ پرگزاراکرتی رہی۔ مخصوص حوالوں سے دردناک نظر آنے والی یہ زندگی پھر بھی میرے لیے حقیقتاََ مسحورکن تھی۔ اس نے مجھے آزادی اور خود مختاری کاانمول احساس دیا۔ 1894 میں اُس نے فزکس اور ریاضی دونوں میں ماسٹر ڈگری کے برابرتعلیم حاصل کرلی تھی۔ اُس برس وہ میونسپل سکول آف فزکس اینڈکیمسٹری میں پروفیسر اور لیبارٹریز کے ڈائریکٹر پیئرے کیوری سے ملی۔

1895ء میں پیئرے سے شادی کے بعد ماری کیوری نے اپنے شوہرکی لیبارٹری میں ” ریڈیوتاب کاری“ کے نئے شعبے پرجداگانہ تحقیق شروع کردی۔ (یہ اصطلاح، یعنی (Radioactivityاُسی کی تخلیق ہے۔) ریڈیوتاب کاری پرماری کیوری کی تحقیق اے ایچ بیکرل کے کام سے تحریک یافتہ تھی جس نے یورینیئم میں تاب کاری کودریافت کیاتھا۔ شروع میں کیوری نے تمام معلوم عناصر کی تاب کاری کی پیمائش کرنے کی کوشش کی۔

پھر اُس نے یورینیئم اور تھورئیم کے ساتھ مل کربننے والے مرکبات میں تاب کاری کی شدت کوناپااور نتیجہ اخذکیا کہ ریڈتاب کاری کامنبع خودایٹموں کے اندرہے۔ اس دریافت نے جدید فزکس میں انقلاب برپاکردیااورسائنس دانوں کی توجہ ایٹم کے اندرون کی جانب مبذول کروائی۔ 1898ء میں اُس نے یورینیئم میں ایک ممکنہ نئے عنصر کے متعلق بتایااور پیئرے بھی اُس کے ساتھ کام میں شامل ہوگیا۔

اُن دونو نے مل کردونئے تاب کارعناصر پولونیئم اور ریڈیئم دریافت کیے۔ ماری کیوری کے آبائی وطن پولینڈسے منسوب پولونیئم کم تاب کاری والے آلات (مثلاََ دل کی دھڑکن کومنظم کرنے والے Pacemaker) میں استعمال کیاجاتارہاہے۔ ریڈیئم کاایک چھوٹاسا زرہ بھی کئی سال تک مسلسل حرارت اور روشنی خارج کرسکتاہے۔ کہاجاتاہے کہ یہ آکسیجن کے بعد دریافت ہونے والا اہم ترین عنصر ہے۔

دونوں عناصر کوالگ الگ کرنے کی خاطر ماری کیوری اور اُس کے شوہر نے سکول آف فزکس کے گراؤنڈزمیں ایک ویران کمرے میں تحقیق جاری رکھی۔ اُنہیں کامیابی حاصل کرنے میں چار سال لگے۔ ماری کیوری نے کہاکہ اگراُنہیں کسی جدید لیبارٹری میں کام کرنے کی سہولت میسر ہوتی تو یہی کامیابی صرف ایک برس میں حاصل ہوجاتی۔ تاب کاری پرمسلسل تحقیق کرنے کے باعث دونوں میاں بیوی اکثر بیماربھی رہتے۔

1900ء میں ماری کیوری نے خیال ظاہرکیاکہ یورینیئم سے نکلنے والی ایلفا شعاعوں میں تاب کارمادے سے نکلنے والے ذرات شامل ہوسکتے ہیں۔ بعد میں یہ مفروضہ درست ثابت ہوا۔ 1903ء میں ماری کیوری نے ڈاکٹریٹ ڈگری کے لیے تاب کاری پراپنی تحقیق جمع کروائی۔ اس مقابلے کوڈاکٹریٹ کے کسی بھی اُمیدوارکی جانب سے پیش کی گئی عظیم ترین تحقیق قراردیاجاتاہے۔

1903ء میں ماری کیوری اور اُس کے شوہرکونوبیل انعام برائے طبیعیات ملا۔ اس اعزاز میں بیکرل بھی شریک تھا۔ اس انعام نے ماری کیوری کوایک مشہور شخصیت بنادیااور سائنس وطب کے میدان میں نوبیل انعامات کی جانب لوگوں نے پہلی بارتوجہ دیناشروع کی۔ تین سال بعد پیئرے کیوری ایک مصروف سڑک کوپارکرتے ہوئے گاڑی تلے آکرہلاک ہوگیا۔ ماری نے تنہاہی تحقیقی سلسلہ جاری رکھا اور سور بون میں پیئرے کاچھوڑاہوا عہدہ سنبھال لیا۔

وہ کالج کی 650سالہ تاریخ میں پروفیسر بننے والی پہلی عورت تھی۔ 1910ء میں وہ خالص ریڈیئم دھات کو lsolateکرنے میں کامیاب ہوگئی اور اگلے برس نوبیل انعام برائے کیمسٹری حاصل کیا۔ اسی برس ایک شادی شدہ سائنس دان پال لانگیوں کے ساتھ اُس کامعاشقہ دنیا بھرمیں موضوع بحث بنا۔سکینڈل کواُچھالنے والے دائیں بازوکے اخبارات نے ماری کیوری کے پولش اور ایک عورت سائنس دان ہونے کوبنیاد بناکراُسے شدید کانشانہ بنایا۔

ماری نے سکینڈل کے بارے میں لکھا: میں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی کہ جس کی وجہ سے خود کوپست محسوس کروں۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ماری اور اُس کی بڑی بیٹی آئرین نے مل کروارزون میں ایک موبائل ریڈیالوجی سروس شروع کی۔ جنگ کے اختتام تک اُن کے ایکسرے سٹیشن 10لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج کرچکے تھے۔ جنگ کے بعدماری کیوری نے” کیوری انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیئم“ میں تاب کاری لیبارٹری کی ڈائریکٹر کے طورپر کام کیااور اسی ادارے کی طرف سے فنڈزجمع کرنے کے لیے امریکہ کا ایک کامیاب دورہ بھی کیا۔

وہ لیگ آف نیشنز کے لیے بن الاقوامی کمیٹی برائے فکری تعاون“ کی رکن بھی تھی۔ اور 125سے زائد انعامات واعزازات وصول کیے۔ 1920ء کی دہائی کے دوران، اپنی کمزور ہوتی ہوئی نظر کے باوجود وہ تحقیقی کام میں لگی رہی۔ 1927ء میں اس نے اپنی بہن کے نام خط میں لکھا پتہ نہیں اپنی لیبارٹری کے بغیر میں زندہ بھی رہ سکتی ہوں یانہیں۔یہ امرتقریباََ یقینی ہے کہ ریڈیئم پرمسلسل تحقیق نے اُس کی صحت پرمنفی اثر ڈالااور وہ 67برس کی عمرمیں لیوکیمیا کے مرض میں مبتلا ہوگئی۔

تاہم آئرین اور اُس کے شوہر(ماری کے داماد) نے اُس کی زندگی میں ہی مصنوعی تاب کاری دریافت کرلی اور 1935ء میں نوبیل انعام کے مستحق قرارپائے۔ جوہری فزکس کے شعبے میں ماری کیوری کے کارنامے دیگرمردسائنس دانوں کے لیے ایک چیلنج تھے۔ اس شعبے میں ایک عورت کی حیثیت سے اُس کی کامیابی خلاف توقع تھی۔ ماری کیوری سے پہلے اور بعد بھی سائنس دان خواتین گزری ہیں، لیکن وہ عالمی سطح پردادوتحسین حاصل کرنے والی پہلی عورت تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Marrie Curie 1867 to 1934 is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 January 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.