
مہنگائی سے نجات
یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔۔۔۔۔۔بدترین مہنگائی میں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پارلیمنٹ میں حکومتی ارکان تو خیر کیوں بولیں گے، اپوزیشن بھی اس شدت اور شدو مد سے نہیں بولتی
پیر 2 جون 2014

چلئے ایک دروازہ تو ایسا ہے جو دستک دینے پر عوام کیلئے کھلتا اور ان کی مقدور بھرداد رسی کرتا ہے اور وہ ہے عدلیہ کا دروازہ۔بدترین مہنگائی میں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پارلیمنٹ میں حکومتی ارکان تو خیر کیوں بولیں گے، اپوزیشن بھی اس شدت اور شدو مد سے نہیں بولتی کہ جس کی عوام اس سے توقع رکھتے ہیں۔ میڈیا اگرچہ کبھی کبھار مہنگائی کو بھی عنوان بناتا ہے لیکن اکثر بیشتر اس کے بھی موضوعات دوسرے ہوتے ہیں۔ ادھر غریب آدمی کو مہنگائی کی کند چھری سے مسلسل ذبح کیا جارہا ہے او وہ زنندہ درگور ہورہا ہے۔ غریب غریب تر بن چکا ہے بلکہ اب تو نان شبینہ سے بھی محروم طبقات کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔ غربت کی وجہ سے خود کشیاں، بچوں کو خود ذبح کرنا، نہروں میں کنبے سمیت چھالنگ لگانا، اپنے بچوں کو فروخت کرنا وغیرہ کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
(جاری ہے)
گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ نے بالآخر عوام کے ان سلگتے ہوئے مسئلے کا نوٹس لے لیا ۔
20روپے من آٹا ہونے پر ایوبی آمریت کے خلاف تحریک چلانے والی قوم اب 55روپے کلو آٹا خریدنے پر مجبور ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ باسمتی چاول 140روپے کلو، خوردنی تیل 200روپے لیٹر، دالیں 120سے 150روپے کلو، دودھ 70سے 80روپے لیٹر اور کوئی بھ سبزی 70روے سے 120روپے کلو تک فروخت ہورہی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر ہم نے کیا جرم کیا ہے؟ کیا ہمارے ووٹوں کی یہی سزا ہے کہ ہم سے زندہ رہنے کا حق بھی چھینا جارہا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بجا طور پر حکومت سے سوال کیا ہے کہ وہ چار افراد پر مشتمل کنبہ کہ جس کی آمدن 7سے 9ہزار روپے ماہانہ ہے، اس کا بجٹ بنا کر پیش کرے۔ مہنگائی کی اس بڑھتی ہوئی لہر کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈالنا یا اسے ایک عالمی مجبوری قرار دینا کسی صورت بھی قرین انصاف نہیں اس لیے کہ موجودہ مہنگائی کے اسباب بالکل واضح اور اظہر من الشمس ہیں، ان میں سے چند حسب ذیل ہیں۔
جی ایس ٹی میں اضافہ:
موجودہ حکومت نے آتے ہی جی ٹی ایس ٹی کی شرح میں کم از کم ایک فیصد اضافہ کردیا۔ ایک فیصد اضافے سے قیمتوں میں 12فیصد اضافہ ناگزیر ہے چنانچہ قیمتوں میں یہ اضافہ حکومتی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ اسی طرح متعدد اشیاء کہ جن پر پہلے جی ایس ٹی نافذ نہیں تھا، ان پر جی ایس ٹی کا نفاذ کیا گیا اور کئی اشیاء پر جی ایس ٹی کی شرح تبدیل کی گئی۔
آئی ایم ایف سے قرضہ:
کشکول گدائی توڑنے کی دعویدار حکومت نے بڑی کوششوں اور منت ترلوں کے بعد آئی ایم ایف سے 6.7ارب ڈالر کا قرضہ آئی ایم ایف کی بدترین شرائش پر حاصل کیا۔ ایسی شرائط ماضی میں کسی حکومت نے کبھی قبول نہیں کیں۔ ان شرائط میں بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور ڈالر کی قیمت کے تعین میں سٹیٹ بینک کی مداخلت کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں۔یہ قرضہ بھی معیشت میں کسی استحکام کا ذریعہ قطعاََ نہیں بن سکتا کہ یہ بنیادی طور پر سابقہ قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے لیا گیا ہے۔
قرضوں کی معیشت:
قرضوں پر انحصار فرد کرے یا ریاست، وہ ہمیشہ اس کی گردن کا ایک طوق ثابت ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح اپنی حکومت کا مدار قرضوں پر رکھا ہوا ہے۔ اس وقت حکومت پاکستان پر کل قرضہ 17356 ارب روپے کا ہے جس کے مطابق ہر پاکستانی شہری ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ یہ قرضے ہمارے جی ڈی پی کے 62.7فیصد کی خطرناک شرح تک پہنچ چکے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی 3ماہ میں 1128ارب روپے کے قرضے لئے ہیں۔ قرضوں کی وجہ سے افراط زرپیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار:
دنیا بھر میں امیروں سے ٹیکس لے کر غریبو پر خرچ کیے جاتے ہیں یہاں غریبوں سے ٹیک لے کر امیروں کو پالا جاتا ہے۔ ٹیکسوں کی شرح کا فارمولا یہ ہوتا ہے یا ہونا چاہئے کہ 70فیصد براہ راست اور 30فیصد بالواسطہ ٹیکس ہوں۔ ہمارے ہاں 70فیصد بالواسطہ اور 30فیصد براہ راست ٹیکس ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس غریب عوام ادا کرتے ہیں۔ بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، سی این جی، ایل پی جی، حتیٰ کہ موبائل فون وغیرہ پر غریب عوام ٹیکس ادا کررہے ہیں اور جن کے اربوں روپے کے اثاثے اور وسیع کاروبار ہیں وہ چند ہزار روپے ٹیکس ادا کر کے صاف بچ جاتے ہیں۔ زرعی آمدن پر ٹیکس کی چھوٹ سے ملک و قوم کو اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ جاگیر درانہ سیاسیت کا بڑا سہارا یہی کالا دھن اور ٹیکسوں کی وجہ سے غریب کیلئے جان اور عزت بچانی بھی مشکل ہوگئی ہے۔
پرائس کنٹرول سے بے اعتنائی:
فری مارکیٹ اکانومی کے اصول کے تحت قیمتوں ، ذخیرہ اندوزی، سٹہ بازی وغیرہ پر کنٹرول کا سرے سے کوئی نظام موجود نہیں۔ کھیت سے صارف کے درمیان 10منافع خور موجود ہوتے ہیں۔ کاشتکار کو بھی محنت کا صلہ نہیں ملتا اور صارفین کی جیبوں پر بھی روزانہ ڈاکے پڑتے ہیں۔ حکومتیں نہ صر فیہ کہ اس منظم ڈاکے سے غافل ہیں، بلکہ وہ اس میں حصہ دار ہیں۔ چند سیاسی خاندانوں کی ملیں ہیں اور وہ اپنے سیاسی اختلافات کے باوجود عوام کے خلاف اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ اتوار بازاروں پر مقامی ایم این اے، ایم پی اے اور پارٹی عہدوہ داروں کا قبضہ ہے۔ چونکہ یہاں سے منظم بھتہ ملتا ہے اس لئے عوام کو یہاں بھی ریلیف نہیں ملتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Mehangai Se Nijat is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 June 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.