نہرِ سویز

ایک زور دار دھماکے کے ساتھ ہزاروں پتھرفضا میں اچھلے اور مٹی نے فِضا کو دھندلا دیا۔ اسی کے ساتھ ہی بحیرۂ روم اوربحیرۂ قلزم(بحیرۂ احمر) کے پانیوں کا مِلاپ ہوا

Dr Syed Muhammad Azeem Shah Bukhari ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری بدھ 15 مئی 2019

Neher e Suez
ایک زور دار دھماکے کے ساتھ ہزاروں پتھرفضا میں اچھلے اور مٹی نے فِضا کو دھندلا دیا۔ اسی کے ساتھ ہی بحیرۂ روم اوربحیرۂ قلزم(بحیرۂ احمر) کے پانیوں کا مِلاپ ہوا ۔ یہ بات ہے نومبر ۱۸۶۹ کی جب مصر میں دنیا کی سب سے بڑی آبی گزرگاہ  'نہر سویز' کی تعمیر مکمل ہوئی۔
کہتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں نپولین نے بھی ایک ایسے راستے کی تجویز دی تھی جو بحیرۂ روم اور قلزم کو مِلا سکے۔

اور اس سے پہلے بھی ایسے کئی منصوبوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ لیکن  ان پر عمل انیسویں صدی کے وسط میں جا کہ ہوا جب فرانس کے ایک انجینیٔر موسو فرڈینینڈ ڈیسپ نے مصر کے محمد سعید پاشا(جو آپس میں گہرے دوست تھے) سے نہر کے لیۓ ایک کمپنی بنانے کی تجویز منظور کروا لی۔ جس میں نصف حِصص پاشا اور باقی ڈیسپ کے تھے۔

(جاری ہے)


اپریل ۱۸۵۹ میں نہر کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا ۔

نہر کی تعمیر سے پہلے، بحیرۂ روم کی بندرگاہ ''بندر سعید'' پہ سامان اُتارا جاتا تھا اور سڑک کے ذریعے بحیرۂ قلزم پر ''سویز'' نامی شہر تک بزریعہ سڑک لایا جاتا ۔ اس نہر کی کھدائی دس برس میں مکمل ہوئی اور اس پر تقریبا تین کروڑ پاؤنڈ خرچ ہوۓ۔ نومبر ۱۸۶۹  میں اسکا افتتاح ہوا۔ نہر کی لمبائی تقریبا ۱۰۲ میل، چوڑائی تقریبا ۲۰۰ فٹ اور گہرائی ۴۲ فٹ کے لگ بھگ ہے۔

کسی قسم کا کوئی ''لاک سسٹم'' نہ ہونے کی بدولت ، بحیرۂ روم اور قلزم کا پانی بغیر کسی روک ٹوک کہ آپس میں ملا ہُوا ہے۔  نہر سویز میں ایک وقت میں ایک ہی بڑا جہاز گزر سکتا ہے۔ اس نہر کی بدولت بحری جہاز برِ اعظم افریقا کے گرد چکر لگائے بغیر یورپ اور ایشیا کے درمیان  براہِ راست آمدورفت کرسکتے ہیں۔ اس نہر کے کُھلنے سے ، برطانیہ سے ہندوستان کا بحری فاصلہ  4000 میل تک کم ہو گیا  ہے۔


‫‪برطانیہ نے اپنے مشرقی مقبوضات کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے اس بحری گزرگاہ میں بے حد دلچسپی لینی شروع کر دی اور آخر کار وزیر اعظم ڈسرائیلی1875ء کے زمانہ میں لارڈ بیکنس فیلڈ نے خدیو مصر کے بہت سے حصص برطانیہ کے لیے خرید لیے۔ اس طرح برطانیہ کو بھی نہر پر اقتدار حاصل ہو گیا اور خدیو مصر کا تعلق بہت کم رہ گیا۔1888ء کے بین الاقوامی معاہدے کی روسے اس نہر کو بین الاقوامی حیثیت دے دی گئی جس کا مطلب یہ تھا کہ صلح اور جنگ دونوں صورتوں میں ہر ملک اور قوم کے جہاز اس نہر میں سے بلا مزاحمت گزر سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ اس بین الاقوامی معاہدہ کی رو سے نہر کی حفاظت کے لیے برطانیہ کو مصر میں اپنی افواج رکھنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا… اور اسی کے ساتھ ہی مصر کی نئی غلامی کا دور شروع ہو گیا۔
سنہ ۱۹۵۶ میں صدر جمال عبدالناصر نے ''اسوان ڈیم'' کی تعمیر سے ہاتھ کھینچ لینے پر، ایک جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوۓ برطانیہ اور فرانس سے لے کر اسے قومیا لیا اور ''نہر سویز اتھارٹی'' کے حوالے کر دیا تاکہ اس نہر کی آمدنی سے ڈیم کا کام مکمل کیا جا سکے۔

مصر کے اس اقدام کے جواب میں ان دونوں ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر مصر پر حملہ کر دیا ۔ جسکے جواب میں مصری حکومت نے نہر میں کئی جہاز ڈبو کر اسے بند کر دیا۔
                             اس جنگ کو روکنے کے لیئے کینیڈا کے سٹیٹ سیکریٹری براۓ خارجہ امور، مسٹر لیسٹر۔بی۔پیرسن نے یہ تجویز دی کہ اسرائیلی افواج ''صحراۓ سینائی'' کے علاقے کو خالی کر دیں اور نہر میں تمام اقوام کے بحری جہازوں کی آمدورفت کو یقینی بنانے کے لیئے اقوامِ متحدہ کی امن افواج کے دستے تب تک تعینات کیۓ جائیں جب تک کہ دونوں ممالک جنگ بندی پہ راضی نہیں ہو جاتے ۔

انکی اس تجویزکو نہ صرف بھاری ووٹوں سے منظور کیا گیا بلکہ اس پر انہیں امن کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ جنگ سے ہونے والے نقصان اور نہر کی صفائی کے لیۓ اسے اپریل۱۹۵۷ تک بند رکھا گیا۔
 مئی ۱۹۶۷ میں صدر جبال عبدالناصر نے اقوامِ متحدہ کے دستوں کو نہر سویز اور صحراۓ سینائی خالی کرنے کا حکم جاری کر دیا اور ''آبناۓ تیران''(جزیرہ نما سینائی اور جزیرہ نما عرب کے درمیان تنگ سمندری گزرگاہیں ہیں جو خلیج عقبہ کو بحیرہ احمر سے جدا کرتی ہیں،اسرائیل کیلیۓ تیل لانے والے جہاز یہیں سے گزرتے ہیں)کو اسرائیلی جہازوں کے لیۓ بند کر دیا جس پر احتجاج کرتے ہوۓ اسرائیل نے مِصر پہ حملہ کر دیا اور جزیرہ نما سینائی کے ساتھ ساتھ نہر کے مشرقی کِنارے پربھی قبضہ کر لیا ۔

۱۹۶۷ کی چھ روزہ عرب۔ اِسرائیل جنگ کے بعد مصر نے ۱۹۷۵ کے وسط تک نہر سویز کو بند کر دیا جسکے نتیجے میں ۱۴ کارگو بحری جہاز ۸ سال تک نہر میں پھنسے رہے۔ ۱۹۷۳ کی ''یوم کپور جنگ'' میں بھی نہرِ سویز مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک سرگرم محاذ بنی رہی۔ آخر کار اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے انور سادات کے دور میں نہر کو دوبارہ کھول دیا گیا۔
۲۰۱۴ میں مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے نہر کو چوڑا کرنے کے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا۔

۶ اگست ۲۰۱۵ کو توسیعی منصوبے کی افتتاحی تقریب نہر سویز کے کنارے واقع شہر اسماعیلیہ میں منعقد کی گئی ۔ اس تقریب میں فرانسیسی صدر فرانسو اولاند ،اردن کے شاہ عبداللہ دوم ،بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ ،فلسطینی صدر محمود عباس ،امیرکویت شیخ صباح الاحمد الصباح اور یونانی وزیراعظم الیکسیس سیپراس سمیت متعدد غیرملکی شخصیات شریک تھیں۔

اس توسیعی منصوبے کے تحت ایک سو ترانوے کلومیٹر طویل نہر سویز کے بہتّر کلومیٹر حصے کو گہرا کیا گیا ہے اور اس کے وسط میں ایک متوازی آبی گذرگاہ بنا دی گئی ہے۔اس سے دو رویہ آبی ٹریفک کو رواں دواں رکھنے میں مدد ملے گی۔ نہر سویز کی گہرائی چوبیس میٹر (اناسی فٹ ) ہوجانے کے بعد اب چھیاسٹھ فٹ گہرائی والے بحری جہاز بیک وقت دو آبی راستوں میں سفر کرسکیں گے۔
دیکھا جاۓ تو مصر میں شاید چند ہی چیزیوں کی قومی افتخار اور معاشی استحکام کے طور پر علامتی حیثیت نہرِ سویز سے زیادہ ہو۔ اور اسکی اہمیت ہونی بھی چاہیۓ کہ اس آبی گزرہ گاہ کے ذریعے دنیا کا سات فیصد سامانِ تجارت گزرتا ہے اور یہ مصر کے لیے نہ صرف زرمبادلہ کمانے بلکہ سیاحت کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Neher e Suez is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 May 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.