
نہرِ سویز
ایک زور دار دھماکے کے ساتھ ہزاروں پتھرفضا میں اچھلے اور مٹی نے فِضا کو دھندلا دیا۔ اسی کے ساتھ ہی بحیرۂ روم اوربحیرۂ قلزم(بحیرۂ احمر) کے پانیوں کا مِلاپ ہوا
ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری
بدھ 15 مئی 2019

کہتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں نپولین نے بھی ایک ایسے راستے کی تجویز دی تھی جو بحیرۂ روم اور قلزم کو مِلا سکے۔ اور اس سے پہلے بھی ایسے کئی منصوبوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ لیکن ان پر عمل انیسویں صدی کے وسط میں جا کہ ہوا جب فرانس کے ایک انجینیٔر موسو فرڈینینڈ ڈیسپ نے مصر کے محمد سعید پاشا(جو آپس میں گہرے دوست تھے) سے نہر کے لیۓ ایک کمپنی بنانے کی تجویز منظور کروا لی۔ جس میں نصف حِصص پاشا اور باقی ڈیسپ کے تھے۔
(جاری ہے)
اپریل ۱۸۵۹ میں نہر کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا ۔
برطانیہ نے اپنے مشرقی مقبوضات کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے اس بحری گزرگاہ میں بے حد دلچسپی لینی شروع کر دی اور آخر کار وزیر اعظم ڈسرائیلی1875ء کے زمانہ میں لارڈ بیکنس فیلڈ نے خدیو مصر کے بہت سے حصص برطانیہ کے لیے خرید لیے۔ اس طرح برطانیہ کو بھی نہر پر اقتدار حاصل ہو گیا اور خدیو مصر کا تعلق بہت کم رہ گیا۔1888ء کے بین الاقوامی معاہدے کی روسے اس نہر کو بین الاقوامی حیثیت دے دی گئی جس کا مطلب یہ تھا کہ صلح اور جنگ دونوں صورتوں میں ہر ملک اور قوم کے جہاز اس نہر میں سے بلا مزاحمت گزر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس بین الاقوامی معاہدہ کی رو سے نہر کی حفاظت کے لیے برطانیہ کو مصر میں اپنی افواج رکھنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا… اور اسی کے ساتھ ہی مصر کی نئی غلامی کا دور شروع ہو گیا۔
سنہ ۱۹۵۶ میں صدر جمال عبدالناصر نے ''اسوان ڈیم'' کی تعمیر سے ہاتھ کھینچ لینے پر، ایک جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوۓ برطانیہ اور فرانس سے لے کر اسے قومیا لیا اور ''نہر سویز اتھارٹی'' کے حوالے کر دیا تاکہ اس نہر کی آمدنی سے ڈیم کا کام مکمل کیا جا سکے۔ مصر کے اس اقدام کے جواب میں ان دونوں ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر مصر پر حملہ کر دیا ۔ جسکے جواب میں مصری حکومت نے نہر میں کئی جہاز ڈبو کر اسے بند کر دیا۔
اس جنگ کو روکنے کے لیئے کینیڈا کے سٹیٹ سیکریٹری براۓ خارجہ امور، مسٹر لیسٹر۔بی۔پیرسن نے یہ تجویز دی کہ اسرائیلی افواج ''صحراۓ سینائی'' کے علاقے کو خالی کر دیں اور نہر میں تمام اقوام کے بحری جہازوں کی آمدورفت کو یقینی بنانے کے لیئے اقوامِ متحدہ کی امن افواج کے دستے تب تک تعینات کیۓ جائیں جب تک کہ دونوں ممالک جنگ بندی پہ راضی نہیں ہو جاتے ۔انکی اس تجویزکو نہ صرف بھاری ووٹوں سے منظور کیا گیا بلکہ اس پر انہیں امن کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ جنگ سے ہونے والے نقصان اور نہر کی صفائی کے لیۓ اسے اپریل۱۹۵۷ تک بند رکھا گیا۔
مئی ۱۹۶۷ میں صدر جبال عبدالناصر نے اقوامِ متحدہ کے دستوں کو نہر سویز اور صحراۓ سینائی خالی کرنے کا حکم جاری کر دیا اور ''آبناۓ تیران''(جزیرہ نما سینائی اور جزیرہ نما عرب کے درمیان تنگ سمندری گزرگاہیں ہیں جو خلیج عقبہ کو بحیرہ احمر سے جدا کرتی ہیں،اسرائیل کیلیۓ تیل لانے والے جہاز یہیں سے گزرتے ہیں)کو اسرائیلی جہازوں کے لیۓ بند کر دیا جس پر احتجاج کرتے ہوۓ اسرائیل نے مِصر پہ حملہ کر دیا اور جزیرہ نما سینائی کے ساتھ ساتھ نہر کے مشرقی کِنارے پربھی قبضہ کر لیا ۔ ۱۹۶۷ کی چھ روزہ عرب۔ اِسرائیل جنگ کے بعد مصر نے ۱۹۷۵ کے وسط تک نہر سویز کو بند کر دیا جسکے نتیجے میں ۱۴ کارگو بحری جہاز ۸ سال تک نہر میں پھنسے رہے۔ ۱۹۷۳ کی ''یوم کپور جنگ'' میں بھی نہرِ سویز مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک سرگرم محاذ بنی رہی۔ آخر کار اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے انور سادات کے دور میں نہر کو دوبارہ کھول دیا گیا۔
۲۰۱۴ میں مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے نہر کو چوڑا کرنے کے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا۔ ۶ اگست ۲۰۱۵ کو توسیعی منصوبے کی افتتاحی تقریب نہر سویز کے کنارے واقع شہر اسماعیلیہ میں منعقد کی گئی ۔ اس تقریب میں فرانسیسی صدر فرانسو اولاند ،اردن کے شاہ عبداللہ دوم ،بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ ،فلسطینی صدر محمود عباس ،امیرکویت شیخ صباح الاحمد الصباح اور یونانی وزیراعظم الیکسیس سیپراس سمیت متعدد غیرملکی شخصیات شریک تھیں۔ اس توسیعی منصوبے کے تحت ایک سو ترانوے کلومیٹر طویل نہر سویز کے بہتّر کلومیٹر حصے کو گہرا کیا گیا ہے اور اس کے وسط میں ایک متوازی آبی گذرگاہ بنا دی گئی ہے۔اس سے دو رویہ آبی ٹریفک کو رواں دواں رکھنے میں مدد ملے گی۔ نہر سویز کی گہرائی چوبیس میٹر (اناسی فٹ ) ہوجانے کے بعد اب چھیاسٹھ فٹ گہرائی والے بحری جہاز بیک وقت دو آبی راستوں میں سفر کرسکیں گے۔
دیکھا جاۓ تو مصر میں شاید چند ہی چیزیوں کی قومی افتخار اور معاشی استحکام کے طور پر علامتی حیثیت نہرِ سویز سے زیادہ ہو۔ اور اسکی اہمیت ہونی بھی چاہیۓ کہ اس آبی گزرہ گاہ کے ذریعے دنیا کا سات فیصد سامانِ تجارت گزرتا ہے اور یہ مصر کے لیے نہ صرف زرمبادلہ کمانے بلکہ سیاحت کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Neher e Suez is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 May 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.