پاک فوج نے بھارتی عسکری اہلیت کا بھانڈا پھوڑ دیا!

مسلح ڈرون کا حشر بھی جاسوس ڈرون جیسا ہوگا، بھارت اور امریکہ کو پیغام․․․․․․ امریکہ ناکامی کے بعد طالبان اور حقانی گروپ پاک فوج سے ختم کرانے کی خواہش کا اسیر

ہفتہ 4 نومبر 2017

Pak fooj ny Bahrti Askri Ahliyat ka bhanda Phoor Diya
اسرار بخاری:
بھارت نے جاسوسی کیلئے ڈرون طیارہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں بھیجا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور دشمن اگر یہ کچھ نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ اسی طرح پاکستان دشمن کاروائیاں تو وہ اپنے قیام کے وقت سے کررہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا یقین رکھنا چاہیے پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے اس بھارت معاندت کو پیش نظر رکھ کر حکمت عملی بنائی ہے جس کا اظہار ہر بھارتی کاروائی کے منہ توڑ جواب سے ملتا ہے۔

اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی بھارتی جاسوسی ڈرون کا مارا گرایا جانا ہے۔ اس لئے یہ دونوں باتیں نہ تو باعث حیرانگی ہیں نہ معمول سے ہٹ کر ہیں لیکن اس میں ایک اندر کی بات بھی ہے وہ ہے وقت کا انتخاب ، بھارت نے یہ ڈرون طیارہ ایسے وقت بھیجا جب امریکہ اسے مسلح ڈرون فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے ۔

(جاری ہے)

دراصل بھارت ڈرون کے اس استعمال کے ذریعہ اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا چاہ رہا تھا جو اسے مسلح ڈرون دیئے جانے کا مستحق بنادے۔

اگر یہ جاسوسی ڈرون صحیح سلامت واپس چلا جاتا تو بھارت میں شادیانے بج رہے ہوتے اور امریکی بھی سرشار ہو رہے ہوتے کہ انہوں نے بھارت کو مسلح ڈرون دینے کا فیصلہ جس مقصد کے لئے کیا ہے اس کی کامیابی یقینی ہے یہ تو نہیں ہوگا بھارت کی اس پہلی ہی ناکامی سے امریکہ بھارت کو علاقے کی بڑی عسکری قوت بنانے سے باز آجائے گا مگر اس حوالے سے اس طرح پر اعتماد نہیں رہے گا جس طرح بھارتی ڈرون کی واپسی کی صورت میں ہوسکتا تھا۔

الحمد اللہ پاک فوج نے بھارت کی جانب سے چھوٹے یا بڑے پیمانے پر ہر عسکری کاروائی پر اس سے ناک رگڑوائی ہے یہ جاسوسی ڈرون مار گرانا بھی اسی عمل کا تسلسل ہے لیکن اس میں بھی اندر کی خاص بات ہے اور وہ یہ کہ امریکہ کو بھی پیغام دیا گیا ہے کہ بھارت کو جتنے مسلح ڈرون دو گے ان کا حشر اس جاسوس ڈرون جیسا ہی ہوگا اس لئے یہ بھارت کو دیکر پاک فوج کے ہاتھوں تباہ کرانے سے بہتر ہے اپنے ملک میں ہی یاکہیں اوربہتر استعمال کرلوویسے کیا یہ امریکیوں کے لئے سوچنے اور جائزہ لینے کا مقام نہیں ہے کہ وہ اپنے ان جاسوسی اور مسلح ڈرون کے ذریعہ طالبان ،حقانی گروپ اور دیگر جنہیں وہ دہشت گرد قرار دیتے ہیں کا سراغ لگا کر اور ان کا خاتمہ کرکے یا انہیں قابو کرکے افغانستان کے ساٹھ فیصد علاقے پر تو اپنی پشت پناہی پر قائم ”حکومت“ کی رٹ قائم نہیں کرسکے جن کے پاس نہ جدید ترین ہتھیار ہیں نہ میزائل اور نہ جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر کیا بھارت مسلح ڈرون کے ذریعہ اس پاک فوج سے ٹکرانے کی حماقت کرکے جس کا لوہا ساری دنیا تسلیم کرچکی ہے خطے میں امریکی مقاصد پورے کرسکے گا۔

نئی جنوبی ایشیا پالیسی کا کھلم کھلا پاکستان کے خلاف چارج شیٹ ہے اس کا مقصد پاکستان کو دباؤ میں لا کر اپنے مقاصد کا حصول ہے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر حکومتی عہدیدار پاکستان کیلئے جس خبث باطن کا مظاہرہ کررہے ہیں، یہ محض ہرگز ٹرمپ کی نئی جنوبی ایشیا پالیسی کا شاخسانہ نہیں ہے۔ ایسا سمجھنے والے دراصل ماضی بلکہ طویل ماضی سے امریکہ کی پاکستان کے ساتھ منافقت اور طوطا چشمی میں لپٹی مخاصمت کو نظر انداز کررہے ہیں۔

ان مخاصمانہ اور معاندانہ رویوں کا اظہار مختلف امریکی عہدیداروں کے بیانات سے ہوتا رہتا ہے ۔ اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی کہتی ہے۔ بھارت افغانستان میں امن سمیت پاکستان پر نظر رکھنے میں امریکہ کی مدد کرسکتا ہے کیونکہ واشنگٹن خطے میں ایسی حکومت برداشت نہیں کرسکے گا جو دہشت گردوں کو پناہ دیتی ہے ۔ امریکی انخلاء کے بعد طاقتور ترین ملک بھارت افغانستان میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

پاکستان سے بہتر تعلقات کیلئے اپنی جانب سے بنیادی کام کرلئے ہیں تاہم ہمیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہم انہیں (پاکستان)اپنا جوابدہ بنائیں جس کیلئے بھارت ہماری مدد کرنے جارہا ہے۔ امریکہ جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ بنانے کیلئے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنا چاہتاہے اور اس مقصد کیلئے امریکہ اپنے تمام معاشی، سفارتی اور فوجی وسائل بروئے کار لائے گا۔

سابق صدر باراک اوباما کے مشیر ڈیوڈ کل گلن نے 5 مئی 2009ء کو ایک بیان میں کہا” پختون پاور پورے علاقے کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے اور اسے ختم کرنا ضروری ہے۔ اس طاقت کو توڑنے کیلئے امریکہ نے بشمول بھارت ایک رابطہ گروپ تشکیل دیا ہے ۔ اگر پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات نہ کئے تو امریکہ خود حملہ کرکے ان ٹھکانوں کو ختم کردے گا۔“ سابق امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزرائس نے ایک موقع پر کہا تھا ہم جانتے ہیں پاکستان کے ایٹمی خطرہ سے کیسے نمٹنا ہے اور وزیر خارجہ ٹلرسن نے اسلام آباد روانگی سے قبل افغانستان میں بگرام ایئر پورٹ پر میڈیا سے گفتگو میں کہا”پاکستان سے دہشت گردی کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کی ”مخصوص درخواست “ کردی ہے۔

آئندہ تعلقات شرائط کی بنیاد پر ہوں گے۔ یہ بیانات پاکستان کے حوالے سے امریکی عزائم کے آئینہ دار ہیں۔ یہ بھی پاکستان کے خلاف امریکی خبث باطن کا اظہار ہے کہ پاک فوج کے جانبازوں نے کینڈین فیملی کو زندہ سلامت بازیاب کر ا لیا۔ صدر ٹرمپ کے غیر اخلاقی رویہ کی انتہا ہے کہ اگرچہ پاک فوج کی قدرے تحسین ضرور کی مگر دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کے مصداق اسے امریکی حکم کی تعمیل کا تاثر ضروردیا ۔

نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا کہ امریکی جاسوس طیارہ عسکریت پسندوں کے کیمپ میں ایک خاتون اور بچوں کو دیکھا اور یہ سمجھا گیا کہ پانچ سال قبل اغوا ہونے والی کینڈین فیملی کے ارکان ہیں۔ چنانچہ بازیابی کے لئے کمانڈوز پر مشتمل نیوی سیل 6 کی ٹیم تیار کی گئی۔ کچھ خدشات کی بنا پر آپریشن منسوخ کر دیا گیا۔ ایک دن بعد معلوم ہوا انہیں کیمپ سے نکال کر پاکستان کی جانب روانہ کیا گیا ہے ۔

اگر پاک فوج کاروائی نہ کرتی تو امریکہ پاکستان کے اند ر آپریشن کرنے کیلئے تیار بیٹھا تھا۔ اخبار کے مطابق امریکی ڈیوڈ ہیل نے حکومت پاکستان کو آگاہ کیا ۔ اس انٹیلی جنس شیئرنگ پر پاک فوج نے انہیں بازیاب کرالیا۔ بات اتنی سادہ نہیں ہے بلکہ اس سے بعض سوالات نے جنم لیا ہے۔ امریکی فوج ، انٹیلی جنس ادارے اور اس کے جاسوس طیارے پانچ سال کی طویل مدت میں اس فیملی کا سراغ کیوں نہ لگا سکے۔

اگر امریکی دعویٰ مان لیا جائے کہ یہ فیملی حقانی گروپ کی قید میں رہی تو اس کا مطلب ہے حقانی گروپ کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں نہیں، افغانستان میں ہیں۔ مغوی جوشوا بوئل کے بقول پانچ سال افغانستان وہ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کرتا رہا۔ اس مدت میں تین بچوں کا باپ بنا۔ اس کے بقول وہ سب سے زیادہ نظر انداز کئے جانے والے اقلیتی گروہ کی مدد کرنے گیا تھا۔

وہ کس نوعیت کی مدد کرنے گیا تھا کیا امدادی سامان لیکر گیا تھا۔ یہ سب کچھ ظاہر نہیں ہوا۔ پاک فوج کے ہاتھوں اس فیملی کی محفوظ بازیابی سے امریکی فوج کی اہلیت کا پول کھلا ہے، اس پر پردہ ڈالنے کیلئے امریکی سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومیے نے دعویٰ کردیا” یہ فیملی پانچ سال پاکستان میں ہی رہی مگر اسے یہ یاد نہیں رہا کہ نیویارک ٹائمز کے مطابق ان افراد کی افغانستان سے پاکستان منتقلی کی اطلاع امریکی انٹیلی جنس کے سراغ لگانے پر امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے حکومت پاکستان کو دی تھی اور اس طرح مائیک پومیے اس واقعہ کی آر میں پاکستان میں حقانی گروپ کے محفوظ ٹھکانے موجود ہونے کی جو چالاکی چلنا چاہتا تھا، اس کی قلعی کھل گئی۔

ریکس ٹلرسن نے بگرام میں کہا” پاکستان امریکی شرائط پر عمل کرے ورنہ نتائج کیلئے تیار ہوجائے“ مفہوم کا جو بیان دیا تھا، اس کا جواب سرد مہری سے دیا گیا ۔ وزیر خارجہ یاسیکرٹری خارجہ کی بجائے دفتر خارجہ کے ڈائر یکٹر جنرل بلال ساجد نے استقبال کیا اور پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی ٹلرسن کو اپنی دھمکی کا جواب مل گیا۔ امریکہ کو سمجھ آجانی چاہیے تھی جب جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو ٹوک انداز میں انہیں باور کرایا تھا” ہمیں جنگی جہاز ‘ اسلحہ یا مالی امداد نہیں چاہیے بلکہ باعزت تعلقات چاہیے۔

سول اور عسکری قیادت سے اجتماعی ملاقات میں ٹلرسن پر یہ بھی واضح کردیا کہ افغانستان میں بھارت کا کسی قسم کا کردار ناقابل قبول ہے۔ امریکہ جنوبی ایشیا میں بھارت کو ”تھانیدار“ بنانے کے خواب دیکھتا رہے، اس میں رنگ تب ہی بھرے گا جب پاکستان بھارت کی بالادستی قبول کرلے گا۔ مگر یہ ایک خیال است، محال است وجنوں والا معاملہ ہے۔ امریکہ افغانستان پر قبضہ کی 16 سالہ جنگ ہار چکا ہے ۔

وہ چاہتا ہے پاک فوج نے جس طرح اپنے ملک میں نوے فیصد سے زائد دہشت گردوں کا صفایا کردیا ہے، اسی طرح پاک فوج افغانستان میں طالبان کا صفایا کردے مگر اس کا کریڈٹ اور ثمر امریکہ کو مل جائے یہ ثمر جرمن تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق افغان علاقے لوگر میں دنیا کے سب سے بڑے تانبے کے ذخائر ہیں۔ دیگر معدنیات اس کے علاوہ ہیں جن کی مالیت کا اندازہ اسی کھرب ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔

جنوبی ایشیا میں امریکی نمائندہ ایلس جی ولز نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں برسر پیکار دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں تعاون کے حوالے سے مثبت رویہ دکھائے اور افغان طالبان کو ہر صورت مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کیلئے کردار ادا کرے ہم پاکستان سے آنے والے چند ہفتوں اور مہینوں کے دوران دہشت گردوں کے خلاف عملی اقدامات کی توقع رکھتے ہیں یہ فیصلہ پاکستان نے خود کرنا ہے کہ اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے یا نہیں ۔

پاکستان سے اس حوالے سے ایسے ہی اقدامات کی توقع رکھتے ہیں جیسے اس نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کئے ، وہ دہشت گرد جو امریکہ اور بھارت کے لئے خطرہ تھے“ یہ چند جملے بہت اہم ہیں باقی بیان لسی میں پانی ملانے کے مترادف ہے۔ ان سطور میں کئی باریہ بات کی جاچکی ہے کہ امریکہ اپنی اور پوری یورپی طاقت کے باوجود سولہ سال سے پھوڑنے کے باوجود طالبان کو شکست نہیں دے سکا اور اس نے دیکھا کہ پاک فوج نے بہت کم مدت میں اپنے ہاں دہشت گردی کے عفریت کا سر کچل دیا ہے اب وہ بری طرح حریص ہے کہ پاک فوج افغانستان میں طالبان اور حقانی گروپ کا بھی خاتمہ کرکے”سرفرازی“ کا تاج اس کے سر پر سجا دے۔

ایلس جی ولرنے یہ بات تو کھل کر کہہ دی ہے وہ پاکستان سے اس حوالے سے ایسے ہی اقدامات کی توقع رکھتے ہیں جیسے اس نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کئے اس میں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے اعتراف کر لیا کہ پاکستان نے دہشت گردوں پر فتح حاصل کرلی ہے تب ہی تو وہ ایسے اقدامات کی خواہش کے اسیر ہیں دوسری حقیقت اس ے یہ ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان دہشت گرد نہیں ہیں کبھی کبھار اگر ایسی کوئی واردات ہوتی ہے تو وہ کہیں اور سے آتے ہیں اور اس ”کہیں اور“ کا امریکہ کو بخوبی علم ہے۔

بہر حال اس حوالے سے جس کی کھلی تصدیق امریکی ترجمان نے کردی ہے ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکیوں پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان اب ڈومور نہیں کرے گا اب ڈومور تمہاری باری ہے ۔ یاہم نے جو کرنا تھا کردیا اب تم کرو“ ساتھ ہی یہ روشن حقیقت بھی مدنظر رہے کہ امریکیوں پر یہ واضح کئے جانا آرمی چیف کا انفرادی ‘ پاک فوج کا اجتماعی موقف نہیں ہے بلکہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام کا متفقہ بیانیہ ہے۔

پاکستان پر جارحیت کی حماقت کرنے والے مسلح افواج ہی نہیں 20 کروڑ عوام کو مدمقابل پائیں گے۔ واقعاتی شواہد کے آئینہ میں دیکھا جائے تو طالبان کو مذاکرات کی میز لانے کا مطالبہ امن کی حقیقی خواہش اور اس سلسلے میں نیک نیتی سے تال میل نہیں کھاتا۔ ویسے امریکہ کی جانب سے افغانستان میں امن کی حمایت نرافراڈ ہے کیونکہ پاکستان نے خود امریکی خواہش پر جب بھی طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کیا ، امریکہ نے سبوتاژ ہی کیا ہے۔

کبھی مری مذاکرات کے موقع پر ملا عمر کے انتقال کی خبر چلا کر اور دوبارہ مذاکرات کے موقع پر ملا منصور پر ڈرون حملہ کرکے اور یہ امن کی کیسی خواہش ہے کہ ایک جانب داعش کے خلاف بیانات اور دوسری طرف شام اور عراق سے داعش کو افرادی قوت کی فراہمی اور ہوائی جہازوں، ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ ہتھیاروں کی سپلائی جاری ہے۔افغان پارلیمنٹ کے ممبر حضرت علی کے بقول داعش کے ایک ہزار کے قریب جنگجو تورا بورا پہنچنے کی اطلاع دی گئی مگر حکومت نے تو جہ نہیں دی۔

دوسری رکن پارلیمنٹ عبیداللہ بارک نے بھی داعش کے حوالے سے امریکی منصوبے پر آوازاٹھائی جبکہ پارلیمنٹ کے سپیکر عبدالرؤف ابراہیمی نے داعش کی موجودگی کے حوالے سے امریکی کردار پر آواز بلند کی ہے ۔ سابق صدر حامد کرزئی نے افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار امریکہ کو قراردیا ہے ۔ یاد رہے امریکہ نے سکیورٹی بہتر بنانے کے نام پر ستمبر 2014ء میں افغان حکومت سے 2024ء تک کا جو معاہدہ کیا تھا‘ تین سال بعد بھی وہ بے ثمر ہے ۔ سکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ وزیر خارجہ ٹلرسن بگرام ایئرپورٹ سے کابل صدارتی محل جانے کی جرأت نہ کرسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pak fooj ny Bahrti Askri Ahliyat ka bhanda Phoor Diya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.