
- مرکزی صفحہ
- مضامین و انٹرویوز
- قومی مضامین
- قیام امن کی کنجی پاک افغان سرحد پر بسنے والے پشتونوں کے پاس ہے
قیام امن کی کنجی پاک افغان سرحد پر بسنے والے پشتونوں کے پاس ہے
افغانستان اورپاکستان میں قیام امن کیلئےایک بہت اہم پہلوکونظراندازکیا گیا ہے۔ قیام امن کا خوب دیکھنے والے پالیسی ساز غالباََ تصور کا اہم رخ دیکھنے سے قاصر رہے یا پھر جان بوجھ کر اس پہلو کو نظر انداز کردیا گیا ہے
سید بدر سعید
منگل 25 فروری 2014

(جاری ہے)
اقوام متحدہ کی خوراک و زراعت کی تنظیم (FAO)کی رپورٹ کے مطابق سوویت یونین کے حملے سے پہلے افغانستان کی تین چوتھائی آبادی کاشتکاری سے جڑی تھی اور یہ ملک ایسی زرعی معیشت کے طور پر جانا جاتا تھا جو ترقی کی جانب گامزن تھا لیکن اب صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ کھیت کھلیان اجڑ چکے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان میں قیام امن کیلئے ایک بہت اہم پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ قیام امن کا خوب دیکھنے والے پالیسی ساز غالباََ تصور کا اہم رخ دیکھنے سے قاصر رہے یا پھر جان بوجھ کر اس پہلو کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ افغانستان میں اتحادی افواج کی ناکامی کی بڑی وجہ وہ ساڑھے چار کروڑ پشتون قبائلی ہیں جو پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف میں بستے ہیں۔ یہ وہ قبائل ہیں جنہوں نے نہ صرف 1842ء، 1879ء اور 1920ء کی تین اینگلو افگان جنگیں مل کر لڑیں بلکہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں بھی ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اس کے درمیان دُکھ سُکھ کا یہ رشتہ ابھی تک قائم ہے۔ انہیں اعتماد میں لئے بغیر نہ تو پاک افغان سرحد کو محفوظ قرار دیا جاسکتا ہے ، نہ ہی عسکری کارروائیوں کے خاتمے کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔
2010ء میں پاکستانی سرحد کے قریب موجود شنواری قبیلے کے راہ نماؤں نے ایسا ف فورس کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی جبکہ کچھ اور قبیلے بھی ایساف میں بھرتی ہونے کیلئے تیار تھے لیکن ایساف نے اسے رد کردیا۔ ایساف کو خطرہ تھا کہ ان قبائل کو فورسز میں شامل کرنے سے افغان حکومت کے تحفظات مزید بڑھ جائیں گے اور یہ قبائل صورتحال کی خرابی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اتحادی افواج کا مقامی قبائل کون نظر انداز کرنا صورتحال میں مزید خرابی کا باعث بنا۔ اس سے واضح طورپر اتحادی افواج کی حمایت میں کمی آئی جبکہ طالبان کی حمایت میں اضافہ ہوا۔
فائلوں اور کاغذات میں مختلف منصوبے پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوت ہے کہ افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی قیام امن کی کنجی انہی قبائل کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں قومی دھارے میں شامل کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف تعاون پر آمادہ کرلیا جائے تو بہت حد تک عسکریت پسندوں کو اپنی پناہ گاہوں سے محروم ہونا پڑے گا۔ پاکستان نے مختلف قبائل اور امن جرگوں کے ذریعے صورتحال کو بڑی حد تک بہتر بنایا ہے لیکن مجموعی طور پر قیام امن کے لئے ان قبائل کی خدمات سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ یہ ایک نیم عسکری فورس ہیں جو نہ صرف شورش زدہ علاقوں سے بخوبی واقف ہیں بلکہ لڑنا بھی جانتے ہیں۔ ان میں سے متعدد قبائل عسکریت پسندوں کے خلاف اٹھنا چاہتے ہیں اور اپنے علاقوں میں امن چاہتے ہیں لیکن نیٹو کی منظوری کے بغیر وہ ایسا نہیں کرسکتے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قیام امن کیلئے انہیں ساتھ ملایا جائے اور ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Qayyam e Aman Ki Kunji is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 February 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.