قیام پاکستان کی کہانی :بابا میر دین کی زبانی

پاکستان کی آزادی پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر اد ا کریں کم ہے اس ملک کی بنیادوں میں نوجوان لڑکیوں کی عزتیں ، ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں اور بیٹوں کا خون شامل ہے لیکن بد قسمتی سے آج کے نوجوان خداد ادِ پاکستان کے قیام کے مقا صد کے لئے دی جانے والی قربانیوں کو بالکل فراموش کرچکے ہیں

منگل 14 اگست 2018

qiyam e Pakistan ki kahani  baba Meer deen ki zubani
 یاسر ملک
پاکستان کی آزادی پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر اد ا کریں کم ہے اس ملک کی بنیادوں میں نوجوان لڑکیوں کی عزتیں ، ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں اور بیٹوں کا خون شامل ہے لیکن بد قسمتی سے آج کے نوجوان خداد ادِ پاکستان کے قیام کے مقا صد کے لئے دی جانے والی قربانیوں کو بالکل فراموش کرچکے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ قیام پاکستان کے حصول کیلئے دی جانے والی قربانیوں کی یاد کو زندہ رکھنا انتہائی ضروری ہے اس ملک کے قیام کے پیچھے ہزاروں لرزہ خیز کہا نیاں دفن ہیں ۔

ان کہا نیوں میں ایک کہانی بابا میر دین کی ہے ۔یہ بزرگ اس وقت پچاسی (85) سال کا ہو چکا ہے اور بھولا چک ضلع ننکانہ صاحب کا رہائشی ہے ۔برصغیر پاک وہند کی تقسیم کو اکہتر سال ہو چکے ہیں لیکن اس تقسیم کے نتیجے میں بابا میر دین کے خاندان پر گزرنے والی قیامت کا ایک ایک لمحہ آج بھی ان کے ذہن پر نقش ہے تقسیم کے دوران گزرنے والی قیامت صغریٰ کے واقعات بابا میر دین کی زبانی سنیں :” میرا خاندان برصغیرکی تقسیم سے پہلے ضلع امر تسر کے گاؤں نا رائین گڑھ کا رہائشی تھا تقسیم کے وقت میری عمر چودہ برس تھی ۔

(جاری ہے)

3اگست 1947ء کا دن تھا میرے والد صاحب کو ٹانگرہ اسٹیشن پر سکھوں نے حملہ کرکے شہید کر دیا ۔تقسیم ہند کے اعلان کے بعد میرے والد کا قتل ہمارے خاندان اور علاقے میں سب سے پہلی شہادت تھی اور پورے پنجاب میں سکھ مسلم فسادات پھوٹ پڑے ۔15اگست 1947ء کو پورے گاؤں کے مسلمان سکھوں کے ڈرسے اپنی زندگیوں کو بچانے کی کوشش میں بے سر وسامانی کے عالم میں اپنے گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی طرف روانہ ہوئے ۔

ابھی دو کلو میٹر کا سفر طے کیا تھا کہ سکھوں کے ایک گروہ نے ہمارے قافلے پر بندوقوں اور تلواروں سے حملہ کر دیا اس حملے میں ہمارے گاؤں کے پچاسی مسلمانوں کو موقع پر قتل کر دیا گیا ۔جس میں میرے خاندان کے گیا رہ افراد شامل تھے اور سکھ ہمارے قافلے کی اٹھائیس عورتوں کو زندہ اٹھا کر لے گئے ۔ا ن میں کچھ عورتوں نے اپنی عزت کو بچاتے ہوئے اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ کنوئیں میں چھلانگیں لگا کر موت کو گلے لگا لیا جان بچانے کی خاطر میں اپنی ننھی بہن کو اٹھا کر موقع سے بھاگ نکلا اور قریب گئے کی فصل میں چھپ گیا ۔

گنے کی فصل میں میرے گاؤں کے تین مسلمان افراد نے جان بچانے کے لئے پناہ لے رکھی تھی ۔میری ننھی بہن خوف کی وجہ سے مسلسل رو رہی تھی ہمیں اس بات کا ڈرتھا کہ سکھ ہمیں گنے کی فصل میں ڈھونڈکے قتل نہ کردیں تینوں افراد نے مری ننھی بہن کو گلہ دبا کر ماردینے کی کوشش کی ۔مجھے اپنی ننھی بہن سے بے پناہ انتہا محبت تھی اس لئے میں اپنی بہن کو ساتھ لے کر گنے کی فصل سے بھاگ نکلا اور واپس اپنے گاؤں نا رائین گڑھ آگیا ۔

نارائین گڑھ گاؤں میں میرے خاندان سے بچ جانے والے افراد مجھے زخمی حالت میں ملے ان زخمی افراد میں میرے دادا جا ن نے مسجد میں پناہ لی اور باقی لوگو ں سے کہا کہ مجھے یہیں چھوڑ دو میرے اکلوتے پوتے ہونے کے ناتے میرا دادا مجھ سے بے پناہ محبت کرتا تھا میرے دادا نے مجھ سے آخری ملاقات میں جی بھر کے پیار کیا اللہ کو ہمارے اس خاندان کو بچانا مقصود تھا اس لئے ایک سکھ جس کا نام الہ سنگھ تھا اس نے ہماری عورتوں کے زیور کے بدلے ہمیں کیمپ تک با حفاظت پہنچانے کی ذمہ دار ی اٹھائی اس سکھ نے صرف زیور بلکہ ہمارے سارے سازو سامان کو اپنے پاس رکھ کے میرے خاندان کے بچے کھچے افراد کو خلچیاں کیمپ تک پہنچا یا میں اور میرا خاندان انتہائی دکھ اور صدمہ کی حالت میں تھا لیکن کیمپ میں موجود ہر خاندان میری طرح اپنے خاندان کے لوگوں کو قربان کرکے وہاں پہنچا تھا اس کیمپ میں موجود افراد نے تین دن کیمپ میں قیام کیا اس قیام کے دوران دو دن تک کھانا نہ ملنے کی صورت میں درختوں کے پتے تک کھا کر گزارہ کیا تین دن کے بعد ملٹری کے ٹرک کے ذریعے میرے خاندان سمیت کیمپ میں موجود باقی افراد کو والٹن کیمپ لاہور منتقل کر دیا گیا ۔

“ بابامیر دین اس کہانی کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ زاروقطار رور ہے تھے اور میں یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ قیام کے وقت اپنے سارے خاندان کو قربان کرنے کا کیا مقصد تھا کیا میرے ملک کے حکمرانوں اور نوجوانوں کو ان قر بانیوں کا ادراک ہے جو اس ملک کے حصول کے لئے دی گئیں اگر صحیح معنوں میں اس بات کا ادراک ہوتا تو پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست پر استوار کیا جاتا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

qiyam e Pakistan ki kahani baba Meer deen ki zubani is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 August 2018 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.