کوئٹہ کو ڈویژن بنا کر 2 اضلاع میں تقسیم کرنیکا فیصلہ

سرکاری دفاتر میں اردو زبان کو فروغ دینے پر زور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مردم شماری کے بعد بلوچستان کی نشستیں مزید بڑھ گئیں

پیر 13 نومبر 2017

Queta Ko Dvision Bna Kr 2 IZllah Me Taqseem Krny Ka Faisla
عدن جی:
بلوچستان کی سرحد کے قریب جب میڈیا میں 4 خواتین کے زیر حراست ہونے کی خبریں آئیں اور یہ کہا گیاکہ یہ خواتین کالعدم تنظیم سے تعلق رکھتی ہیں تو عام تاثر یہ تھا کہ اب بلوچستان میں بلوچ عسکریت پسندوں اور تحزیب کاروں کے ساتھ خواتین بھی دشمن کی آلہ کار بن چکی ہیں پھر ایوان میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ارکان نے ان خواتین کی رہائی کا مطالبہ کیا اور یہ کہا گیا کہ یہ خواتین بلوچ ہیں اور ان کا تحزیب کاری سے کوئی تعلق نہیں پھر یہ اطلاعات ملیں کہ خواتین بلوچستان حکومت کے پاس ہیں اور اب ان کی رہائی کی خبریں بمعہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی تصاویر کے ساتھ آئیں۔

دلچسپ وضاحت یہ تھی کہ کالعدم تنظیم کے کمانڈر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ اور ایک اور کمانڈر اسلم بلوچ کی بہن اور دیگر رشتہ دار خواتین شامل تھیں۔

(جاری ہے)

ان کو رہا کردیا گیا اور صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے ان کی رہائی کا اعلان کیا گوریلا کمانڈر اسلم بلوچ اور کمانڈر اللہ نذر بلوچ کے حوالے سے پہلے کبھی خبریں آئی تھیں کہ مقابلے میں مارے گئے بعد میں اطلاع ملی کہ زندہ ہیں ان پر دہشت گردی کے بہت سے الزامات ہیں بہر طور ان خواتین کی رہائی کے موقع پر وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس کی گئی جس میں وزیر داخلہ نے بتایا کہ تین خواتین اور چار بچوں کو 30 اکتوبر کو افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن سے گرفتار کیا گیا اور یہ خواتین افغانستان جانے کیلئے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنا چاہتی تھیں جہاں اُن کے بقول اللہ نذر اور دیگر عسکریت پسند موجود ہیں تفتیش کے دوران جو انکشافات ہوئے ہیں ان میں ان خواتین کے افغانستان میں کالعدم تنظیموں کے لئے پیسوں کی ترسیل کرنے کا الزام بھی شامل ہے۔

وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کی کوششیں کرنے کے باوجود سکیورٹی فورسز نے باعزت طریقے سے ان خواتین کو وزیراعلیٰ بلوچستان کے حوالے کیا کہ ہم ” اپنی خواتین اور بچوں کی عزت کرتے ہیں“ وزیر اعلیٰ نے بلوچی روایت کے تحت ان خواتین کو چادر پہنا کر روانہ کیا اور ان کے گھر کے مردوں اور بھائی کے حوالے کیا۔

سرفراز بگٹی نے کہا ان خواتین کی گرفتاری سے ثابت ہوگیا کہ بلوچستان میں دہشت گردی میں افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا جارہا ہے، یوں کالعدم تنظیم سے تعل قرکھنے والے کمانڈر اور گوریلا کمانڈر کی اہلیہ اور دیگر بلوچ خواتین کو باعزت طریقے سے رہا کردیا گیا، دوسری جانب بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست بڑھانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ رقبے کے اعتبار سے بلوچستان پاکستان کا 43 فیصدہے، لہٰذا حالیہ مردم شماری کے بعد کی نشست بڑھانا بہت ضروری ہوگیا ہے کیونکہ اس کی منتشر آبادی کا حالیہ مردم شماری میں اندازہ ہوا کہ یہاں کی آبادی بڑھ گئی ہے اور اس کی قومی اور صوبائی اسمبلی کے رقبے بہت زیادہ ہیں جہاں مسائل زیادہ اور وسائل کم ہیں اور کم نشستوں کی وجہ سے بہتر انداز میں شنوائی نہیں ہوتی اسی لیے بلوچستان سے ہمیشہ ہی آواز آتی ہے کہ مرکزی حکومت بلوچستان کے مسائل پر توجہ نہیں دیتی شاید اس کی وجہ بلوچستان کی کم نشستیں ہونا ہے اب حالیہ مردم شماری کے تحت اس کی آبادی میں جو اضافہ ہوا ہے تو بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافہ بہت ضروری ہے ، تاہم بعض اطلاعات آئی ہیں کہ مردم شماری کے بعد بلوچستان کی نشستیں اب تین بڑھ گئی ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک صائب فیصلہ ہوگا۔

بلوچستان کابینہ نے اپنے حالیہ اجلاس میں چند اہم فیصلے کئے ہیں اجلاس کی صدارت وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے کی اجلاس میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو علیحدہ ڈویژن بنا کردو اضلاع میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جا چکا ہے ۔ صوبے میں ایلیٹ فورس کے قیام کی بھی منظوری دی گئی۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سرکاری دفاتر میں اُردو زبان کو فروغ دینے پر بھی زور دیا گیا۔

صوبائی وزیر اعلیٰ کے احکامات کے تحت بلوچستان کے صحافیوں کی کوششیں کی گئی ہے اور کوئٹہ پریس کلب اور اخبارات کے دفاتر کے باہر پولیس تعینات کردی گئی ہے اور حکومت کی ذمہ داری شاید یہاں تک ختم ہے مگر صحافی ایک خوف کے سائے میں کام کررہے ہیں کہ انہیں صرف ایک جگہ محدود رہ کر تو کام نہیں کرنا ہوتا،اس طرح ہاکر بھی گھر گھر ، گلی گلی جاتا ہے اس کا تحفظ کیسے ہوگا، یوں اخبارات کے بندہونے کی اطلاعات ہیں لہٰذا صحافیوں کو دی گئی دھمکیوں والے معاملات کو تو حل کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Queta Ko Dvision Bna Kr 2 IZllah Me Taqseem Krny Ka Faisla is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.