سیاسی پناہ کے قوانین میں نئی تبدیلیاں‘یورپی ممالک تناؤ کا شکار

دیار غیر میں روشن مستقبل کا ادھورا خواب․․․․․ کیا نئی یورپی سرحدی فورس مہاجرین کے بحران سے نمٹنے ،نقل وحرکت کی آزادی کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوپائے گی؟

منگل 1 اگست 2017

Siyasi Panah Qawaneen Main Nayi Tabdeelian
محبوب احمد:
دیار غیر میں روشن مستقبل اور محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں بھٹکنے والے تارکین وطن کی ناگہانی اموات پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی تشویش اپنی جگہ لیکن عالمی برادری کی طرف سے کٹھن حالات کے ہاتھوں بے بسی کی تصویر بننے والے مہاجرین کی آباد کاری کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کرنا لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔

موجودہ حالات میں اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ترقی پذید ممالک دنیا بھر کے مہاجرین کی 86 فیصدتعداد کے میزبان دکھائی دیں گے جبکہ دولت مند ممالک محض 14 فیصد کا خیال رکھ رہے ہیں، اس وقت جہاں لاکھوں مہاجرین کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں وہیں یورپی یونین مہاجرین کے حقوق کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے میں مصروف ہے، لہذا یورپی یونین کی طرف سے سرحد کو محفوظ بنانے کے اقدامات سے مہاجرین اور سیاسی پناہ لینے والوں کے لئے اور بھی خطرہ بڑھ گیا ہے۔

(جاری ہے)

دنیا بھر میں مہاجرین اور سیاسی پناہ گزینوں سے چھٹکارے کیلئے زیادہ تر انہیں جیل میں بند رکھا جاتا ہے بعض اوقات تو انہیں جہازوں میں تنگ جگہ پر محصور کر دیا جاتا ہے ۔ 2015ء دنیا بھر بالخصوص یورپ میں مہاجرین کی بڑی تعداد کے داخلے کے اعتبار سے اہم رہا ہے،گزشتہ برس شام اور دیگر شورش زدہ علاقوں سے تقریبا 15 لاکھ سے زائد افراد نے یورپ کی طرف ہجرت کی تھی،اس دوران ہزاروں پناہ گزین کشتیوں کے ذریعے بحیرہٴ روم عبور کرتے ہوئے اپنی زندگی سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے تھے۔

یورپی ممالک میں داخل ہونے والے مہاجرین میں سے آٹھ لاکھ کا تعلق مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے ہے،یہ امربھی قابل غور ہے کہ گزشتہ برس یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کی تعداد 2014ء کے مقابلے میں چار گناہ زیادہ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین نے سیاسی پناہ کے اپنے قوانین میں نئی اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے اور اس کا مقصد یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو ان کی مرضی کے مطابق مختلف یورپی ممالک کا رخ کرنے سے روکنا ہے۔

یورپی یونین کے رکن ممالک میں سیاسی پناہ کے یکساں قوانین نہ ہونے کے باعث اب تک 28 رکنی یونین میں داخل ہونے والے تارکین وطن زیادہ تر اپنی پسند کے ممالک کا رخ کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس بلاک میں یکساں قوانین کی عدم موجودگی یونین کے رکن ممالک کے مابین اکثر تناؤ کا باعث بنتی ہے۔ نئی اصلاحات میں یونین کے رکن ممالک سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور ہونے کے 6 ماہ بعد انہیں روزگار کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے بھی اقدامات کریں گے، علاوہ ازیں آئندہ تارکین وطن کے لئے یہ بھی لازمی ہوگا کہ وہ اسی یورپی ملک میں قیام کریں گے جہا ں انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کروا رکھی ہوں گی۔

یاد رہے کہ قبل ازیں بھی سیاسی پناہ کے یورپی قوانین میں تبدیلیاں کی گئی تھی کہ وہ صرف اسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست دے سکتے ہیں جہاں سے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوئے ہوں، اس منصوبے کے تحت تارکین وطن کو یونان اور اٹلی جیسے ممالک سے نکال کر یونین کے دیگر رکن ممالک میں منصفانہ طور پر تقسیم کرنا بھی شامل تھا، تاہم مشرقی یورپ سے کئی رکن ریاستوں نے تارکین وطن کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے سے انکار کردیا تھا۔

کیا قوانین میں مجوزہ تبدیلیوں کا مقصد سیاسی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو قانونی تحفظ اور نابالغ پناہ گزینوں کو یقینی تحفظ کی فراہمی کے علاوہ یورپ بھر میں ایسے عمومی معیارات کا تعین ہے کہ جن کے ذریعے یونین کا ہر رکن ملک پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے اور انہیں اپنے ہاں پناہ دینے کا یکساں طور پر پابند ہوگا؟۔ یورپی پارلیمان جہاں سیاسی پناہ کے قوانین میں نئی تبدیلیاں کررہا ہے وہیں مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لئے نئی یورپی سرحدی فورس بنانے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔

یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے تحفظ کے لئے مشترکہ سرحدی محافظ تعینات کرنے کا منصوبہ ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سرحدی فورس مہاجرین کے بحران سے نمٹنے اور نقل وحرکت کی آزادی کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوپائے گی؟ کیونکہ ہر روز تسلسل کے ساتھ ہزاروں لوگ شورش زدہ علاقوں سے نکل کر محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔

یورپی پارلیمان کے 48 اراکین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا،اس منصوبے کی حمایت میں 483 جبکہ مخالفت میں 181 ووٹ ڈالے گئے، گزشتہ برس لاکھوں مہاجرین کی یورپ آمد کے بعد یونین میں بحرانی صورت حال پیدا ہو گئی تھی اورشینگن زون میں شامل کئی یورپی ممالک نے اپنی ملکی سرحد پر از سر نو ”بارڈرکنٹرول“ کا نظام متعارف کرایا تھا اور ان اقدامات کے بعد شینگن زون میں یورپی باشندوں کی آزادانہ نقل وحرکت کے رکن ممالک اب بھی روزانہ کی بنیاد اپنی ملکی سرحدوں کی حفاظت خود ہی کرسکیں گے، تاہم ہنگامی صورت حال میں وہ یورپی یونین کے مشترکہ سرحدی محافظوں کی مدد طلب کر سکیں گے۔

یورپی یونین میں ”فرنٹکس بارڈر ایجنسی“ کے نام سے پہلے ہی ایک مشترکہ فورس موجود ہے جس کا صدر دفتر پولینڈ کے دالحکومت وارسا میں ہے، نئی فورس کے قیام سے نہ فرنیکس کی افرادی قوت میں اضافہ ہوگا بلکہ ان کے اختیارات کا دائرہ کا ر بھی وسیع ہوجائے گا،ابتدائی طور پر اس نفری میں 15 سو اہلکار شامل کئے گئے ہیں۔ جرمنی میں مہاجرین کے بارے میں نئے قوانین کو ”قانون برائے سماجی انضمام“ کانام دیا گیاہے اور اس میں مہاجرین کے لئے سماجی انضمام کے کورسز سے لے کر ان کی تعلیمی ،فنی تربیت ،ملازمت اور ان کے جرمنی میں رہائش کے حقوق تک جیسے سبھی پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے، ان قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے والے مہاجرین کو اس عمل کے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے اور تعاون نہ کرنے والے مہاجرین کو اس نہ صرف سماجی سہولیات سے محروم کردیا جائے گا بلکہ انہیں جاری کردہ عارضی رہائش نامے بھی منسوخ کئے جاسکیں گے۔

جرمنی نے پناہ گزینوں کی آبادکاری کے لئے ایک کوٹہ سسٹم بھی متعارف کرایا تھا جس کے تحت مہاجرین کو جرمنی کی مختلف ریاستوں کی آبادی اور ٹیکس انکم کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا جہاں وہ لوگ پناہ گزینوں کے لئے مخصوص کیمپوں میں زندگی گزاریں گے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو مہاجرین کے لئے خوش آمدید ی پالیسی کی بنا پر بہت زیادہ مقبولیت ملی، تاہم اب جرمنی میں تارکین وطن کی آبادی کے خلاف اٹھنے والی آوازیں بھی اپنا اثر دکھا رہی ہیں کیونکہ بعض قدامت پرست حلتے مہاجرین کی بڑی تعداد کے باعث اسلامائزیشن کے خوف کا شکار ہیں ۔

1960 کی دہائی کے آغاز پر جرمنی نے ترک شہریوں کو بطور ”مہمان کارکن“ اپنے ہاں بلا تو لیا تھا لیکن ان لاکھوں غیر ملکیوں کو جرمن شہریت دینے اور ان کے سماجی انضمام کے لئے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی، گزشتہ برس کے دوران مشرق وسطیٰ ،ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک ملین سے زائد مہاجرین کی جرمنی آمد کے بعد ایسے قوانین کی فوری ضرورت خاص طور پر محسوس کی جا رہی تھی۔

جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن جب متعلقہ حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کراتے ہیں ،تو انہیں ابتدائی طور پر صرف تین ماہ تک عارضی قیام کی اجازت دی جاتی ہے، اگرکوئی تارک وطن جرمنی میں 15 ماہ تک قیام کرچکا ہو تو پھر ملازمت کے لئے درخواست دہندگان کے طور پر قانوناََ کسی جرمن،یورپی یا غیر یورپی امیدوار میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی اور سب کو برابر کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق مہاجرت کا یہ سلسلہ فی الوقت رکتا نظر نہیں آرہا۔ جرمن چانسلر کا اصل امتحان اب شروع ہوگا کہ وہ ابتدا ء میں تارکین وطن کی بحالی سے متعلق کئے گئے اپنے وعدوں پر عملدرآمد کو کیسے یقینی بناتین ہیں، دوسری جانب یورپ کے بعض ممالک نے تارکین وطن کو خطرہ سمجھتے ہوئے ان کے داخلے پر پابندی لگانے کی کوشش بھی کی ہے،یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ان تارکین وطن کی اکثریت مسلم ممالک سے تعلق رکھتی ہے جس سے دوسوال جنم لیتے ہیں ،ایک یہ کہ آیا مسلم ممالک روایتی بے حسی ترک کرکے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کیلئے کب کمر بستہ ہوں گے؟ اور دوسرا یہ کہ کیا یورپی یونین میں شامل ممالک اسلامائزیشن کے خوف کو مسترد کرکے مہاجرین کی انسانی بنیادوں پر مدد جاری رکھ سکیں گے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Siyasi Panah Qawaneen Main Nayi Tabdeelian is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 August 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.