ٹرمپ کا پہلا دورہٴ ایشیا، مقاصد کیا ہیں؟

تاریخ انسانیت میں گزشتہ سو برس میں ہونے والے واقعات ”حادثاتی “ نہیں تھے․․․․․․․․․ بھارت کی ہندو جنونی حکومت کو چین اور پاکستان کے خلاف استعمال کیاجانا ہے

پیر 6 نومبر 2017

Trump Ka Pehla Doora Asia Maqasid Kya Hy
محمد انیس الرحمن:
گذشتہ ایک صدی کے دوران دنیا جس تیزی اور جس قسم کی تبدیلیوں کی زد میں آئی ہے عالم انسانسیت نے اپنی گذشتہ تاریخ میں اس کا مشاہدہ نہیں کیا ہے ۔انسان کے وجود کے بعد ہزاروں برسوں سے قائم اس دنیا میں یہ سو برس اس انداز سے گزرے ہیں کہ ہرگز رتی دہائی عجائبات کا نیا پنڈورا کھول دیتی تھی اور تاحال یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔

کیا یہ سب کچھ ” حادثاتی طور پر ہوا؟ صلیبی جنگیں جو کئی سو سال جاری رہیں ان کا ابتدائی اعلانے کرنے والا ایک رومن کیتھولک پوپ اربن ثانی تھا لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد جو 1918 ء میں اختتام پذیر ہوئی اور سیکولر برطانیہ کا جنرل ایلن بی بیت المقدس میں داخل ہو اور اعلان کیا کہ آج صلینی جنگوں کا اختتام ہوگیا، مذہب کے نام پر شروع ہونے والا صلیبی جہاد ایک سکیولر مغربی طاقت برطانیہ کے مکمل غلبے سے اختتام پذیر ہوتا ہے!! کی یہ سب کچھ ”حادثاتی “ تھا۔

(جاری ہے)

؟ نیویارک میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور کو بلا کر 1917ء میں اسرائیلی صہیونی ریاست کے قیام کا اعلان کرایا جاتا ہے ، اس بالفور ڈیکلریشن بھی کہتے ہیں اور اس کے بعد 1948ء تک یورپین یہودیوں کو اسرائیل ہجرت کرنے کی اجازت ملتی ہے، ایک بات ذہن میں رہے یہ یورپین یہودی ہیں بنی اسرائیل نہیں، یورپی یہودی انہیں کہتے ہیں جن کا نبی اسرائیل سے کوئی نسلی یا جنیاتی تعلق نہیں بلکہ ساتویں صدی عیسوی میں انہوں نے پر اسرار انداز میں یہودی مذہب قبول کرلیا تھا آج یہی یورپین گورے یہودی اسرائیل کی صہیونی ریاست کے اصل حکمران ہیں، اس ریاست کے قیام کو فورا بعد ہی برطانیہ کی جگہ امریکہ نے دوسری عالمی حکمران ریاست کے طور پر اپنا منصب سنبھالا!! کیا یہ بھی ”حادثاتی“ طور تھا؟ اس کے بعد اسرائیل روز بروز امریکہ اور یورپ کی مدد سے طاقت پکڑتا جاتا ہے اور آج وہ امریکہ سے بھی بڑی سو پر طاقت بن چکا ہے، 26 اکتوبر کو برطانوی وزیراعظم تھریسامے دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئی کہتی ہیں کہ ” برطانیہ کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے لئے کردار ادا کیا۔

کیا برطانوی وزیر اعظم کا یہ قول بھی ’‘ حادثاتی“ طور پر ہے؟ اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ یہ تمام معاملات جوا رض مقدس فلسطین میں ظاہر ہورہے تھے وجود میں نہ آتے اگر اس سے پہلے یورپ میں پر اسرار طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا نہ ہوتا کیونکہ انسانی تاریخ میں یہ انوکھا حیران کن انقلاب تھا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

کتنی عجیب بات ہے کہ کرہ ارض پر بہت سی اقوام موجود ہیں لیکن یہ صنعتی اور سائنسی انقلاب صرف ایک قوم ہی سے صادر ہوتا رہا۔۔۔۔ اس سائنسی انقلاب کو مغرب نے عسکری ٹیکنالوجی میں تبدیل کیااور مغرب سے نکل کر باقی تمام دنیا پر قبضہ جما کر نو آباد یاتی نظام مسلط کردیا۔ خلافت جو دین اسلام کا حصہ ہے اسے 1924ء میں مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔ کیا یہ سب کچھ ”حادثاتی“ طور پر ہوا؟ ان مغربی طاقتوں نے نو آبادیاتی نظام اس وقت تک ختم نہیں کیا جب تک کچھ ”اہم“ کام نہیں کرلئے۔

انہوں نے سب سے پہلے سونے اور چاندی کے سکے یعنی دینار اور درہم کو مارکیٹ سے ختم کیا اور اس کی جگہ اپنی کاغذ کی بوگس اور حرام کرنسی رائج کردی جس کا دین اسلام میں بھی تصور نہیں ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی مانیٹری فنڈ قائم کرکے باقی تمام دنیا پر پابندی عائد کردی کہ کوئی ملک سونے اور چاندی کو کرنسی کے طورپر استعمال نہیں کرسکے گا۔ اس طرح اس کاغذ ی کرنسی کی مدد سے دنیا کی دیگر اقوام کی معیشت اور قدرتی وسائل کو نشانے پر لے لیا۔

اس طرح دنیا کا وہ حصہ جسے مغرب کہتے ہیں حیرت انگیز طور پر امیر در امیر ہوتا چلا گیا اور باقی دنیا سب کچھ ہونے کے باوجود غربت کی لپیٹ میں آگئی ۔ مغربی دنیا جو دولت مند ہورہی تھی وہی اسرائیل کے وجود کی حمایت بھی کرتی تھی بلکہ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی لے لیا۔ کیا یہ سب کچھ بھی ”حادثاتی “ طور پر تھا۔ یہی سب کچھ سترکی دہائی کے بعد ہوا یعنی جنوب مشرقی ایشیا اور خلیجی عرب ممالک جو خاموشی سے اسرائیل کے وجود کی حمایت کررہے تھے یکایک دولت مند ہونا شروع ہوگئے۔

لیکن جو ممالک اور جن کے عوام دین اسلام کی اقدار سے جڑے ہوئے تھے جیسے انڈونیشیا، پاکستان ، بنگلہ دیش، افغانستان وغیرہ غربت کی چکی میں پسنے لگے۔ کرنسی میں انقلاب کے علاوہ عالمی مارکیٹ میں بھی انقلاب لایا گیا اور تمام عالمی مارکیٹ میں بھی انقلاب لایا گیا اور تمام عالمی مارکیٹ کو سود سے نتھی کردیا گیا۔ یار ہے سو سال پہلے تک عالمی تجارت میں سودرائج نہیں تھا بلکہ کئی صدیوں پہلے تک یورپ میں بھی سود میں لین دین جرم سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہودی ساہو کارقرضوں کی بنیاد پر یورپین حکومتوں کو بھی غلام بنا کر اپنی مرضی کے قوانین نافذ کروا لیا کرتے تھے جس کی بنا پر برطانیہ ، فرانس ، سپین، اٹلی ، جرمنی اور دیگر ممالک نے یہودیوں کو مختلف ادوار میں یورپ سے نکال دیا تھا لیکن بعد کی صدیوں میں یہ یورپین نام اختیار کرکے پھر سے یورپ میں آگئے اور یہی دھندہ انہوں نے بینک قائم کرکے پھر سے شروع کردیا جس کی وجہ سے پہلے یورپ اور آج باقی دنیا”غلامی“ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

عالمی بینک اورآئی ایم ایف کی شرائط رہی مانے گا جو غلام بن چکا ہو۔۔۔۔ کیا یہ سب کچھ بھی ”حادثاتی “ طور پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں معاشرتی انقلاب بھی لاناضروری تھا صدیوں سے قائم ثقافتیں جڑ سے اکھڑ گئیں اب مشرق سے مغرب تک ایک ہی لباس نظر آتا ہے، ایک ہی جیسی نظام تعلیم مسلط کئے جارہے، ایک ہی جیسے شوق اور تفریحات ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ قرب قیامت عورت ایسا لباس پہنے گی مگر وہ برہنہ ہوگی۔

۔ کیا آج ایسا ہو نہیں رہا؟ کیا یہ بھی ”حادثاتی “ طور پر ہے؟ چند برس قبل عالم مغرب میں ایک انقلاب ”عرب اسپرنگ“ کے نام سے دنیا نے دیکھا، کہنے کو اسے”عرب بہار“ کا نام دیا گیا لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسی ”عرب خزاں“ ثابت ہوا جس نے جہاں شمالی افریقہ سے لیکر مشرق وسطی میں ایک آگ لگادی تو دوسری جانب باقی رہ جانے والے عرب ملکوں کی بہت سے حکومتوں کے منہ سے نقاب الٹ دیا۔

کیا اسے بھی” حادثاتی“ واقعے کا نام دیا جائے گا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے کے دوران ظاہر ہونے والے ان پر اسرار واقعات کی کیسے تشریح کی جائے۔ آج کی دنیا کی کیسے وضاحت کی جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام سوالات کے جوابات قرآن کریم اور حدیث مبارکہ میں موجود ہیں لیکن ان تک پہنچنے کے لئے ہم علمی بنیاد پرکوئی طریقہ کار وضع کرنے میں ناکام رہے۔

قرآن کریم کی اصل روح سے دوری نے اس امت کے علماء کو جاگنے نہ دیا۔ بدلتے زمانے کے ساتھ جو ماڈرن ریفرنسز دنیا کے سامنے کھل چکے تھے قرآن فہمی کے لئے انہیں نصاب نہیں بنایا گیا، اللہ رب العزت سورة الخل میں فرماتا ہے کہ:ترجمہ۔ اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز بیان کردی گئی ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے“۔

جب سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے تو اسے جاننے کے لئے باقاعدہ طریقہ کار کیوں نہ وضع کیا گیا ہے ۔ قرآن کریم آخری کتاب ہے، دین اسلام انسانیت کے لئے آخری دین ہے تو پھر علم الآخر الزمان کیوں نہ مسلمانوں کو پڑھایا گیا۔ غالباََ اس علم کا سوائے چند ایک کے شاید ہی کوئی ماہر مسلمان عالم ہو۔ ان حقائق تک پہنچنے کے لئے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ الآخر الزماں، فلسفہ تاریخ، بین الاقوامی تعلقات عامہ، قرآن کریم کا نظام المعنی اور عرب لغت وادب پر مکمل دسترس ضروری ہے لیکن کتناعلما ہیں جوان علوم سے بہرہ مند ہیں؟ اب جبکہ سوبرس کے بعد دنیاایک مرتبہ پھر بڑی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے ، برطانیہ رقبے کے لحاظ سے چھوٹا ملک تھا لیکن نو آبادیاتی نظام کی وجہ سے اس کی سلطنت میں سورج نہیں ڈوبتا تھا، اس کے بعد امریکہ عالمی حکمران ریاست بنتا ہے وہ رقبے کے لحاظ سے بڑا ملک تو ہے لیکن اس کے باوجود عالمی دجالی صہونیت مالیاتی اداروں اور عسکری اڈوں کی بنیاد پر باقی دنیا کو تابع فرمان بنائے رکھتی ہے ۔

اب تیسرا اور آخری مرحلہ اسرائیل کی بین الاقوامی سیادت کا ہے لیکن وہ رقبے کے لحاظ سے انتہائی چھوٹا ملک ہے اور چاروں طرف سے عرب ملکوں میں گھرا ہوا ہے اس لئے مہلک ہتھیاروں کے ذریعے اس کی حدود کو دریائے نیل کے مشرقی کنارے سے لیکر عراق میں دریائے فرات تک وسعت دینے کا منصوبہ ہے جیسا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں آویزاں نقشے میں دکھایا گیا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی آبادی کو نصف سے بھی زیادہ کم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ایسا اسی وقت ممکن ہے جب دنیا میں جوہری قوتیں آپس میں ٹکرا جائیں جیسا کہ ہوتا نظر آر ہا ہے اسرائیل کی عالمی دجالی سیادت کا جواز چونکہ مذہبی یہودی ریاست پر ہے اس لئے باقی دنیا سے بھی اب سیکولرازل اور لبرل ازم کا خاتمہ ہونا شروع ہوجائے گا۔ بھارت کی ہندو مذہبی جنونیت کے باوجود اسے عالمی قوتوں کی جو حمایت حاصل ہے ہمیں اس کا مطلب سمجھ آجانا چاہیے جبکہ پاکستان میں مذہبی تنظیموں کے نام سے ہی تمام دنیا کے پیٹ میں مروڑ اٹھ جاتے ہیں۔

جوں جوں اسرائیل کے لئے عالمی سیادت کے حوالے سے جگہ بنانے کا وقت قریب آرہا ہے دنیا پر سے امریکہ کی دھاک ختم ہوتی جارہی ہے۔ ڈالر عنقریب زوال پذیر ہوجائے گا، اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے چین اور روس نے سونے میں تجارتی لین دین کو فروغ دینا شروع کردیا ہے ۔ یعنی دینار اور درھم ۔ باقی وہ عرب ملک جنہوں نے سترکی کی دہائی میں تیل کی قیمت کو سونے سے ہٹا کر ڈالر سے منسلک کرکے”پیٹر وڈالر“ کا نام دیا تھا کہ آخری دور میں سونے اور چاندی کے سواتمام چیزیں اپنی وقعت کھودیں گی۔

اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ برطانیہ اور امریکہ جب عالمی حکمران ریاست بنے تو اپنے وقت پر انہوں نے اپنی کرنسی رائج کی تھی۔ اسرائیل کی عالمی سیادت کے قیام کے ساتھ ہی کاغذ کی کرنسی کا خاتمہ ہوجائے گا اور دنیا کو الیکٹرانک کرنسی متعارف کرائے گی جس کا مرکزی بینک یروشلم میں ہوگا۔ یہ ایک بہت خطرناک سسٹم ہے جس کے ذریعے دنیا میں کہیں بھی رہنے والے انسان کے اخراجات اور اصرافات کی تفاصیل دجالی بینک سسٹم کو ہوگی۔

یہاں تک کہ کس گھر میں کھانے کا کیا سامان گیا اس کی تفصیلات بھی مرکزی بینک میں محفوظ ہوجائیں گی۔ عالمی صہیونی منصوبے کے تحت امریکہ کو افغانستان سے نہیں نکلنے دیا جائے گا، ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا عجیب وغریب شخص وائٹ ہاؤ میں حادثاتی طور پر نہیں پہنچایا گیا بلکہ اس کے پیچھے امریکی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی پوری منصوبہ بندی تھی۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ جیسے ملک میں جمہوریت ہے اور وائٹ ہاؤس فیصلے کرتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، امریکہ پر امریکی جنرل اور بینک حکومت کرتے ہیں صدر ٹرمپ تو ایک ادنی سا مہرہ ہے ۔ ان تمام حالات میں اب صدر ٹرمپ اگلے ہفتے اپنے ایشیا کے پہلے دورے پر نکل رہے ہیں جہاں وہ جاپان اور جنوبی کوریا میں غالباََ ایک ہفتے تک قیام کریں گے اس کے بعد ویت نام ، فلپائن اور بعد میں چین کا دورہ ہے جہاں دنیا کے سب سے طاقتور چینی صدر ان سے ان کی ملاقات ہوگی۔

عرب صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ شمالی کوریا کی آڑ میں جنوب مشرقی ایشیا کو جنگ کی لپیٹ میں لاکر درحقیقت چین کی مغرب کی جانب سے معاشی اور عسکری پیش قدمی میں رخنہ ڈالنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ طویل المدتی دفاعی معاہدہ کرکے چین اور پاکستان کو جنوبی ایشیا تک محدود رکھنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا سب سے اہم منصوبہ مسلم ممالک کی ”پراکسی تنظیموں“ کو خود ان کے عسکری اداروں کے ہاتھوں انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے نام پر تباہ کروانا مقصود تھا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔

عالم عرب اب نہتا ہوچکا ہے یہی”عرب بہار“ کا اصل مقصد تھا۔ پاکستان کے معاملے میں پلان تھا کہ جنرل مشرف اگر ” لائن“ کراس نہیں کرتے تو یہاں جمہوریت نافذ کرکے پاکستان کو معاشی طورپر کھوکھلا کرکے سودیت یونین کی طرح بکھیر دیا جائے اسی مقصد کے لئے این آر او ہوا اسی کام کو انجام دینے کے لئے میثاق جمہوریت کرائی گئی اور پھر زرداری اور شریف خاندان کی شکل میں پاکستان کو اقتصادی دیوالیہ کے قریب کردیا گیا۔ اس موقع پر ملکی ادارے اور عدلیہ حرکت میں نہ آتی تو تباہی پھیلنے میں کوئی کسر باقی نہ تھی۔ اس لئے آنے والے وقت میں جس تیزی کے ساتھ دنیا کے حالات تبدیل ہورہے ہیں اس میں لٹیروں اور ملک لوٹنے والوں کا احتساب جلد از جلد ہوجانا چاہیے۔ وقت بہت ہی کم ہے۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Trump Ka Pehla Doora Asia Maqasid Kya Hy is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.