وزیراعظم کا10 ہزار میگاواٹ بجلی پیداوار کا اعلان

توانائی بحران براہ راست عوام کی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے تو معاشی و اقتصادی سرگرمیاں بھی اس کی زد میں آ کر بتدریج تنزلی کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ یہ سلسلہ ہمارے ہاں پرویزمشرف کے دورحکومت سے چلا آرہا تھا جب پرویزمشرف نے کئی مرحلوں پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا نعرہ بھی لگایا اور توانائی کی قلت کے خاتمے کے لئے ایک 25سالہ پلان بھی جاری کیا

منگل 9 مئی 2017

Wazir e Azam Ka 10000 MW Bijli Paidawar Ka Elaan
احمد جمال نظامی:
توانائی بحران براہ راست عوام کی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے تو معاشی و اقتصادی سرگرمیاں بھی اس کی زد میں آ کر بتدریج تنزلی کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ یہ سلسلہ ہمارے ہاں پرویزمشرف کے دورحکومت سے چلا آرہا تھا جب پرویزمشرف نے کئی مرحلوں پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا نعرہ بھی لگایا اور توانائی کی قلت کے خاتمے کے لئے ایک 25سالہ پلان بھی جاری کیا، مگر اس کیلئے دو چار اجلاسوں کے بعد کارکردگی عملی طور پر صفر سے زیادہ نہیں رہی۔

گویا توانائی بحران مرحلہ وار وسعت اختیار کرتاچلا گیا اور جیسے جیسے بجلی کی طلب میں اضافہ ہوتا گیا، رسد کی کمی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوتی رہی۔ پرویزمشرف دوراقتدار کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب بجلی کا بحران شارٹ فال کی صورت میں اتنا سنگین ہو گیا کہ 24گھنٹوں میں سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بھی لوڈشیڈنگ ہوتی رہی۔

(جاری ہے)

اس دوران گیس کے بحران نے بھی سر نکالا اور اس طرح ہمارا پیداواری شعبہ ہر طرف سے توانائی بحران کی زد میں آ گیا۔

یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب 2005ء میں ڈبلیو ٹی او کے عالمگیر معاہدے پر دستخط کے بعد پاکستان اس معاہدے کا پابند بن گیا اور بہت سارے پیداواری برآمدی حلقے جن میں بالخصوص شعبہ ٹیکسٹائل شامل تھا انہیں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی صورت میں زر مبادلہ سے بھی محروم ہونا پڑا۔توانائی بحران کے باعث کئی گنا پیداواری لاگت میں اضافے پر عالمی منڈیوں میں ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کو شدید قسم کی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔

پرویزمشرف کی حکومت کے بعد اٹھارہ فروری 2008ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے پیپلزپارٹی نے وفاق میں مخلوط حکومت قائم کی تو توانائی بحران جوں کا توں موجود تھا۔ نندی پور پاور پراجیکٹ اس دور میں ہی شروع کیا گیا تھا اور نندی پور پاور پراجیکٹ کی مشینری کئی ماہ کراچی پورٹ پر کرپشن کی وجہ سے پڑی رہی کہ اس وقت کے بعض ذمہ داران کمیشن چاہتے تھے اور جب انہیں کمیشن نہیں ملی تو اس منصوبے کی مشینری کو جو کہ چین سے درآمد کی گئی تھی اس کو کراچی پورٹ پر پڑے رہنے دیا گیا۔

دوسری طرف ملک بھر میں بجلی کا بحران شدت اختیار کرتا رہا۔ پیپلزپارٹی کے اسی دوراقتدار کے دوران رینٹل پاور پراجیکٹس کا ایک بڑا سکینڈل سامنے آیا جس کو ان دنوں پیپلزپارٹی میں ایک مرتبہ پھر شامل ہونے والے فیصل صالح حیات عدالت میں لے کر گئے تھے اور اس مقدمے کی زد میں پیپلزپارٹی کے وزیراعظم راجہ پرویزاشرف بھی آ رہے تھے۔ ان تمام نامساعد حالات میں بجلی کا بحران بہرحال جاری رہا اور اس میں کمی کی بجائے طوالت ہی آتی رہی۔

اس طرح سے پیپلزپارٹی نے پانچ سالوں تک بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے عملی طور پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں صدر مملکت ہونے کے ناطے آصف علی زرداری نے اقتدار کے آکری دنوں میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا معاہدہ کیا اور گوادر بندرگاہ کے حوالے سے چین کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر کے ایوان صدر سے رخصت ہو گئے۔

پرویزمشرف حکومت کی طرح گیس بحران بعد میں بھی اسی شدت کے ساتھ برقرار رہا مگر اس کے خاتمے کے لئے ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بار بار ازسرنو معاہدے کرنے اور بیانات جاری کرنے کے علاوہ حقیقی طور پر کچھ سامنے نہ آیا۔ اب پاکستان میں ایران کے سفیر اور ان کی حکومت اس منصوبے پر صحافیوں کو کئی مرتبہ تفصیلات بتا چکی ہے کہ ایران کی طرف سے پاکستان کی حدود تک اس پائپ لائن کی تنصیب مکمل ہو چکی ہے۔

جبکہ پاکستان کی طرف سے آج تک کسی قسم کی پیش رفت نہیں کی گئی۔
2013ء کے عام انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ(ن) واحد جماعت تھی جس نے ہر حال میں توانائی بحران ختم کرنے کا بار بار نعرہ لگایا اور اس ایجنڈے کو باضابطہ طور پر اپنے انتخابی ایجنڈے میں شامل کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف تو یہاں تک کہتے رہے کہ اگر چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کر دوں تو میرا نام تبدیل کر دینا۔

بعدازاں انہوں نے خود انتخابات میں کامیابی کے فوری بعد ایک تقریب کے دوران اعتراف کیا کہ بجلی کے بحران اور اس سے متعلقہ مسائل گھمبیر شکل و صورت اختیار کر چکے ہیں جنہیں دیکھ کر ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے ہیں۔ تاہم مسلم لیگ(ن) کو اب جبکہ اقتدار کے تقریباً چار سال مکمل ہو چکے ہیں اور آئندہ مسلم لیگ(ن) سمیت تمام سیاسی جماعتیں انتخابی مہم شروع کر چکی ہیں توانائی بحران اس مہم میں بنیادی نکتہ بن چکا ہے۔

پیپلزپارٹی جس نے پانچ سالوں تک اقتدار میں رہنے کے باوجود توانائی بحران کے حل کے لئے کچھ نہیں کیا وہ ناصر باغ میں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی کیمپ لگا رہی ہے۔ حالانکہ ان کے اپنے سابقہ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے حال ہی میں پیپلزپارٹی میں آنے والے فیصل صالح حیات کے ہاتھوں عدالتوں میں کرپشن کے الزامات کی صورت میں لائے جارہے تھے۔

نندی پور پاور پراجیکٹ کا معمہ بھی سب کے سامنے رہا۔ اب تحریک انصاف بھی یہ کہہ رہی ہے کہ حکومت بجلی بحران پر کیسے قابو پائے گی جبکہ دوسری طرف وزیراعظم میاں محمد نوازشریف ایک ہفتے کے مختصر دورانیے کے دوران بھکھی پاور پلانٹ کا افتتاح کرنے کے علاوہ بجلی کے متعدد منصوبوں کا افتتاح کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بھکھی پاور پلانٹ کا افتتاح کرنے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے جہاں بہت ساری سیاسی باتیں کیں وہاں انہوں نے توانائی بحران کے حوالے سے اعلان کیا کہ آئندہ سال تک سسٹم کو 10 ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کریں گے۔

یہ بات حکومتی منصوبوں کے ذریعے محسوس کی جاتی ہے کہ حکومت 10ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ سٹیشن کو فراہم کر دے گی اور اس طرح سے بجلی کے بحران کے حل میں حکومت کو معاونت حاصل ہو گی، بجلی کا بحران شارٹ فال ختم ہو جائے گا۔ لیکن سب سے اہم نکتہ اس وقت بجلی کی سپلائی لائنو ں کا ہے۔ 132کے وی اے تک بجلی کی سپلائی کا ذمہ دار ہر مقام کی الیکٹرک سپلائی کمپنی ہے۔

ان دنوں مختلف الیکٹرک سپلائی کمپنیز اس ضمن میں مختلف منصوبے شروع کر رہی ہیں کئی منصوبوں کا افتتاح کیا جا چکا ہے۔ فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی فیسکو کی طرف سے بھی ایک دو منصوبوں کا افتتاح کیا گیا ہے۔جبکہ 132کے وی اے سے بڑی ٹرانسمشن لائنوں کی ذمہ داری واپڈا اور این ٹی ڈی سی کی ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتوں انہی رپورٹس میں این ٹی ڈی سی کے حوالے سے لکھا گیا تھا کہ ہماری سپلائی لائنیں اور ڈسپیچ سسٹم ڈیمانڈ کے مطابق اپ گریڈ نہیں ہو سکا جس پر گزشتہ سال کی نیپرا رپورٹ کے حوالے سے موازنہ بھی کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ پر نیپرا کے ترجمان کی طرف سے اپنا ایک وضاحتی مضمون بھی ارسال کیا گیا تھا جو انہی صفحات پر ان کے موقف کے طور پر شائع کیا جا چکا ہے۔ تاہم اب جبکہ موسم گرما کا آغاز ہونے کے بعد بجلی کی لوڈشیڈنگ پر پیپلزپارٹی احتجاج کر رہی ہے اور بالخصوص جبکہ حکومت بار بار سال 2018ء کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ سال قرار دے چکی ہے۔ ان دنوں بجلی کی لوڈشیڈنگ پر زیادہ تشویش اور مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف خود بھکھی پاور پراجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ ٹرانسمشن لائنوں اور سسٹم کی اپ گریڈیشن نہ کرنے والے ذمہ داران کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لانا ہو گی۔ گویا اس وقت اگر حکومت واقعی آئندہ دنوں میں نیشنل گرڈ سٹیشن کو 10ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کر کے بجلی کا شارٹ فال اور لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو فوری طور پر حکومت کو واپڈا، الیکٹرک سپلائی کمپنیز اور این ٹی ڈی سی کے ذریعے لائنوں، گرڈ سٹیشنوں اور بوسیدہ ڈسپیچ سسٹم کو فوری طور پر اپ گریڈ کروانے کی ضرورت ہے۔ورنہ بجلی کی رسد بڑھ جانے پر ہمارا موجودہ سسٹم لوڈ برداشت نہیں کرتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Wazir e Azam Ka 10000 MW Bijli Paidawar Ka Elaan is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 May 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.