وزیراعظم نااہلی سے بچ گئے

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ پیپر لیکس سے متعلق فیصلہ پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ کے اہم دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ معاملہ ملک کے وزیر اعظم اور ان کی فیملی کے حوالے سے ہے فیصلہ پانچ رکنی لارجر بنچ کے سربرا جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پڑھ کر سنایا۔فیصلہ تین اور دو کی اکثریت سے دیا گیا

ہفتہ 22 اپریل 2017

Wazir e Azam Na Ehli Se Bach Gaye
محمد صلاح الدین خان:
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ پیپر لیکس سے متعلق فیصلہ پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ کے اہم دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ معاملہ ملک کے وزیر اعظم اور ان کی فیملی کے حوالے سے ہے فیصلہ پانچ رکنی لارجر بنچ کے سربرا جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پڑھ کر سنایا۔فیصلہ تین اور دو کی اکثریت سے دیا گیا۔

فیصلے میں وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے بیٹوں کے خلاف تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا گیاہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے جمعرات کے روز عمران خان، شیخ رشید، سراج الحق اور کی جانب سے دائر کردہ ان درخواستوں پر دیا جن میں وزیراعظم سمیت چھ افراد کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

بینچ کا 547 صفحات پر مشتمل فیصلہ ایک اکثریتی فیصلہ تھا اور بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد دو ججوں نے اس میں اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 62,63کے تحت وزیر اعظم میاں نوازشریف نے قوم سے خطاب، پارلیمنٹ سے خطاب میں غلط بیانی سے کام لیا وہ صادق امین نہیں رہے انہیں نااہل قرار دیا جائے اور الیکشن کمیشن ان کی نااہلیت کا نوٹیفیکشن جاری کرے۔

اختلافی نوٹ میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ نواز شریف نے اپنی جائیدادوں سے متعلق غلط بیانی کی ہے اسی وجہ سے اپنے نوٹ میں انہوں نے وزیر اعظم کی حیثیت سے کام سے روکنے کا کہا ہے کیونکہ غلط بیانی پر وہ صادق امین نہیں رہے۔جسٹس کھوسہ نے صدر پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔

جسٹس کھوسہ نے انسداد بدعنوانی کے ادارے نیب کو بھی حکم جاری کیا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے کے قوانین کے تحت کارروائی کرے۔ اس کے علاوہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ نواز شریف کے خلاف اپنے سابق ڈائریکٹر جنرل رحمٰن ملک (جو اب پیپلز پارٹی کے سینٹیر ہیں) کی جانب سے 1994 میں درج کیے گئے مقدمات کی تفتیش، شواہد اور تفصیل بھی ضرورت پڑنے پر نیب کو فراہم کرے۔

جسٹس کھوسہ نے اپنے نوٹ میں نیب کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ میاں نواز شریف کے بچوں کے نام پر بنائی گئی تمام جائیدادوں اور کاروبار کا بھی جائزہ لے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ بچے اپنے والد کے لیے یہ جائیدادیں اور کاربار تو نہیں چلا رہے؟نوٹ میں کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف کے معاملہ میں قمر زمان چوہدری کا کردار مشکوک ہے اس لیے وہ ان فریقین کے سلسلے میں ہونے والی کسی تفتیش میں کسی قسم کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔

جسٹس کھوسہ نے نیب کو وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کی بریت کے فیصلے کو ختم کرتے ہوئے منی لانڈرنگ معاملے میں کارروائی کا حکم دیا ہے۔مقدمے میں اختلافی نوٹ لکھنے والے دوسرے جج جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ عوامی عہدیدار کی حیثیت سے یہ میاں محمد نواز شریف کی ذمہ داری تھی کہ وہ لندن فلیٹس کے بارے میں صحیح حقائق سے قوم اور اس عدالت کو آگاہ کرتے۔

لیکن وہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہے اس لیے وہ آئین کی شق 62 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے،اس صورتحال میں عدالت عظمیٰ محض تماشائی کا کردار ادار نہیں کر سکتی بلکہ اسے تکنیکی نکتوں سے بالاتر ہو کر انصاف کی فراہمی کے لیے ایک مثبت فیصلہ دینا ہو گا۔ اس لیے یہ ڈیکلیر کیا جاتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف صادق اور امین نہیں ہیں اور اسی بنا پر وہ رکن قومی اسمبلی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو چکے ہیں اور وزیراعظم کی حیثیت سے کام جاری نہیں رکھ سکتے ۔

دوسری جانب تین ججز نے اپنے اکثریتی فیصلہ میں کہا کہ لندن فلیٹس، اثاثہ جانات، منی ٹریل کے حوالے سے کچھ ایسے سوالات سامنے آئے ہیں جن کی تحقیقات کے لیئے جے آئی ٹی (جوائنٹ انسوسٹی گیشن ٹیم) ہونا ضروری ہے۔فیصلے میں جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن نے وزیراعظم کے خاندان کی لندن میں جائیداد، دبئی میں گلف سٹیل مل اور سعودی عرب اور قطر بھیجے گئے سرمائے سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ جسٹس آصف سعید اور جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کی طرف سے اس ضمن میں پیش گئے ثبوت اور بیانات کو یکسر مسترد کر دیا۔

ججوں کی اکثریت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی ٹیم کی سربراہی وفاقی تحقیقاتی ادارے کا ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل رینک کا افسر کرے جبکہ اس ٹیم میں قومی احتساب بیورو، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے علاوہ فوج کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس کے دو تجربہ کار افسران شامل ہوں گے ۔

عدالت نے متعلقہ اداروں کے سربراہان کو ایک ہفتے کے اندر اندر ٹیم کے لیے اپنے نمائندوں کے نام دینے کا حکم دیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم دو ماہ میں اپنا کام مکمل کرے گی اور اس عرصے میں ہر دو ہفتوں کے بعد پیش رفت سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی ۔ عدالت نے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو حکم دیا ہے کہ وہ اس تحقیقاتی عمل کا حصہ بنیں اور جب ضرورت پڑے تو تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوں۔

عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ ٹیم اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی جس کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس اس رپورٹ کی روشنی میں الگ تین رکنی بینچ تشکیل دیں گے جو وزیر اعظم کے خلاف شواہد ہونے کی صورت میں ان کی نااہلی کے معاملے کا بھی جائزہ لے سکے گا۔پانچ رکنی لارجر بنچ نے مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 23 فروری کو فیصلہ محفوظ کیاتھا جس کا 57دنوں کے بعد اعلان(جاری) کیا گیا، پانامہ کیس کی 26سماعتیں ہوئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Wazir e Azam Na Ehli Se Bach Gaye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 April 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.