وحشتناک خاموشی اور بارود کی بو

گلشن اقبال پارک کا اجڑا گلشن

بدھ 30 مارچ 2016

Wehshatnaak Khamoshi Aur Barood Ki Boo
محمد عاصم نصیر:
سالہا سال سے علامہ اقبال ٹاوٴن کے وسط میں واقعے گلشن اقبال پارک کے سامنے سے گزرنے والے ہزاروں افراد میں ایک میں بھی تھا لیکن آج رات جب یہاں سے گزرا تو جگنووں کی طرح ٹمٹمتے پنگوڑوں کی جگہ خاموشی اور وحشتناک تاریکی لے چکی تھی اور،،،،، آج تو یوں لگا،،،،،، جیسے ،،،،،چاند بھی کچھ خفا خفا ہے،،، نا چاند کی چاندنی تھی ،،،،، اور نا ہی رات کی رانی کی مہک،،،، اگر کچھ تھا بھی تو وہ بدبو دار باردو کی بو تھی جس نے خوشیاں بکھیرنے والے گلشن اقبال پارک کو ہولناکی کی مثال بنا دیا۔

اقبال کے نام سے منسوب وہ گلشن اقبال پارک جو گلوں کی خوشبووں اور ننھے بچوں کی کھلاہٹ سے چہکتا تھا آج بے نور اور تاریکی میں ڈوبا ہوا نظر آیا،، میں نے اپنی کار کو پارک کے ساتھ کھڑا کیا اور پارک کی جانب نظر پڑتے ہی ایک لمحے کیلئے میں دم بخود رہ گیا کیونکہ ایک رات قبل جہاں خوشیوں کے ڈیرے تھے آج وہاں سرخ رنگ نمایاں تھا اور وہ بھی اپنے ہم وطن بہن بھائیوں کا ،،،،، وہ ہری ہری گھاس جو آنکھوں کو معطر کرتی تھی آج خون سے لت پت سراپا احتجاج نظر آئی،،،،اور کچھ یوں گویا تھی کہ مجھے کن گناہوں کی سزا ملی کہ ان ننھے فرشتوں کا لہو مجھے دغدار کر گیا۔

(جاری ہے)

سانحہ گلشن پارک سے قبل کی ایک صبح یاد آئی جب چہل قدمی کی غرض سے میں وہاں گیا تو وہاں سورج کی کرنین مکمل طور پر درختوں اور سبزے پر نہیں پڑی تھی اس کے باوجود شبنم کے قطرے ہیروں کی طرح یہاں آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے،، یہاں جب جب آئے تو خوشیاں سمیٹ کر گئے مگر،،،،،،، آج کیسی یہ رات ہے کہ خوشی کی بجائے خوف اور وحشت ساتھ لے کر جا رہے ہیں۔

لاہور کے دیگر پارکوں کی طرح یہاں بھی جشن بہاراں کو خوش آمدید کہا جا رہا تھا مگر امن کے دشمنوں نے نہتے بچوں خواتین اور بزرگوں کو لہو میں نہلا دیا۔ پارک کے قریبی رہائشی آبادی کا باریش ابوبکر نامی بزرگ مجھے سے پہلے ہی کسی گہری سوچ میں گم تھا اچانک میرے سوال پر انکی آنکھوں میں نمی اتر آئی اور یوں گویا ہوئے کہ کسی نے میری جان ہی نکال لی،،،،،،،،،،،،،،آہ،،،،،،،،،،، روتے ہوئے انکی ہچکی بندھ گئی اور کہنے لگے کہ عمر کے اس حصے میں خون کی ہولی اتنے قریب سے ہوتے پہلی مرتبہ دیکھی،، دھماکے کی آواز نے انکے گھر کے شیشے بھی انکے ارمانوں کی طرح ریزہ ریزہ کردئیے۔

میں یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ خود کش حملہ آور نے اپنی زندگی کا خاتمہ تو کیا ہی ،،، ساتھ ہی ساتھ کئی ماوں کے لال،،،،، اور کئی شہزادوں سے انکی آغوش اور کئی گلشنوں کے آنگن سنسنان کر دئیے،،،، اپنے پروفیشن کے باعث جذبات کو قابو میں رکھنا میری ڈیوٹی میں شامل ہے مگر اپنے احساسات کو کیسے سمیٹوں ،،،،،، خیر آگے بڑھا اور کاروبار زندگی کی جانب نظر دوڑئی تو ایک نئی سوچ نے دل و دماغ پر پہرا ڈال دیا کہ،،،،،، کہیں سوگ اور جنازوں نے بھوک مٹا دی ،،،،،،،اور کہیں بھوک مٹانے کے لیے کاروبار زندگی ہی مفلوج کر دیا گیا،،،،، کیا یہ بھی حادثے پہ ایک اور حادثہ نہیں،،،،،،،، کہ جو گھر چلانے نکلے تھے آج دن بھر سوگ کے عالم میں خالی ہاتھ ہی لوٹ گئے اور کسی نے انکی سفید پوشی کا بھرم بھی نہیں رکھا۔

شہر کی شاہراہیں کسی ایسے جسم کی مانند تھی جس میں روح نہیں تھی ،،،، امن کے دشمنوں سن لو ہم حوصلہ نہیں ہارتے یہ کہنا تھا دن بھر مختلف سیاسی جماعتو ں کے رہنماوں کا ،،، جو سال کے 365دن تو اپنی سیاست کرتے ہیں مگر اس غم کی گھڑی میں متحد ہو جاتے ہیں ،، دل لرز جاتا ہے کہ کیا یہ جانوں کی قربانی کے بعد ہی متحد ہوتے ہیں اور ایک صحفے پر یک جان ہو جاتے ہیں ،،،،،، یقین جانئیے اے پی ایس ہو یا باچا خان ،،،،،،روح کانپ جاتی ہے کہ پاک فوج اور عوام کی ہزاروں جانوں کی قربانیوں کے بعد چند روز متحد رہنے والے کیوں ان قربانیوں کو بھول جاتے ہیں ؟؟؟؟کیا اے پی ایس کے ننھے فرشتوں کی قربانی ہی ان تمام کو قریب لا سکتی تھی ؟؟؟؟،،،،، کیا گلشن اقبال کا چمن اجڑ جانے کے بعد ہی یہ ایک صف میں کھڑے ہونے کو تیار ہوئے ؟؟؟؟،،،،،، کیا مملکت خداداد میں قربانی کے بعد ہی ہماری آنکھیں کھولتی ہیں اور صد ہائے افسوس کہ صرف چند روز کے لیے ہی۔

آخر کب گلشن اقبال پارک جیسے واقعات کی وحشت ہمیں ہمیشہ کیلئے متحد کرے گی میں تو یوں کہوں گا کہ ہم سے قاتل کا ٹھکانہ ڈھونڈا نہیں جاتا،،،،،ہاں ہم بڑی دھوم سے سوگ منا لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Wehshatnaak Khamoshi Aur Barood Ki Boo is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 March 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.