یکساں قومی تعلیمی پالیسی اور یکساں نصاب کی حکومتی خواہش

اچھا معیاری نصابِ تعلیم ہی معیارِ تعلیم کی بہتری اور بلندی کا ضامن ہوتا ہے۔ اچھے نصاب سے مراد ایسا نصاب ہے جو قومی اور بین الاقوامی ضرورتوں اور تقاضوں کا ساتھ دینے کا اہل ہو اور جو ہمہ وقت لچکدارہو، جمود کا شکار نہ ہو۔ اس میں بچوں کی ذہنی، جسمانی، نفسیاتی، معاشرتی، نظریاتی، تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور سب سے بڑھ کر بچوں کو مانوس سا لگے

Rana Zahid Iqbal رانا زاہد اقبال ہفتہ 25 اپریل 2020

yaksaa qaumi taleemi policy aur yaksan nasaab ki hakomati khwahish
 تعلیم کا تعلق افراد اور معاشرے سے ہے ، جیسے جیسے افراد اور معاشرے کی ضروریات اور وسائل بدلتے جاتے ہیں تعلیم کا مفہوم بھی بدلتا جاتا ہے۔ ہر ملک کا فلسفہٴ تعلیم وہاں کے رسم و رواج، عقائدِ مذہب اور وہاں کی تاریخ، ورثے کو مدِ نظر رکھ کر مرتب کیا جاتا ہے۔ جس کے لئے نظامِ تعلیم اور نصاب میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ وفاقی وزیرِ تعلیم کے مطابق اس سال سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں تغیر و تبدل کاکا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔


 ملک و قوم کی ترقی اعلیٰ اور معیاری تعلیم کی مرہونِ منت تو ہے ہی مگر اس کی بنیاد بھی قومی تعلیمی پالیسی اور نصاب ہی بنتا ہے۔ اس نصاب کے تحت نہ صرف قوم کے بچوں میں ملک و قوم کے تاریخی پس منظر کو عام کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ملک کی اساس، سا لمیت، حصول کا مقصد اور ان کی زندگی کا مقصد بیان کیا جاتا ہے تاکہ ان کو یہ معلوم ہو کہ انہوں نے اپنی آنے والی زندگی کو کن خطوط پر استوار کرنا ہے۔

(جاری ہے)

یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نصابِ تعلیم کو رائج کرنے کا ایک مقصد تو صاف ظاہر ہے کہ قوم کے بچوں کو اسی پالیسی کے تحت علم دیا جائے جس کا تقاضا ملک کرتا ہے، ملک کی سا لمیت کرتی ہے، اس کا وقار کرتا ہے، اس کی پہچان کرتی ہے۔ ماضی میں بھی حکومتوں نے ایسی کوششیں کی تھیں لیکن ان کا یکساں نصاب اور یکساں نظامِ تعلیم رائج کرنے کا طریقہٴ کار اتنا دقیا نوسی ثابت ہوا ہے یعنی بجائے یکساں نظامِ تعلیم کے قوم کو مختلف طبقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔

 
نصابِ تعلیم کا مسئلہ ہماری قوم کے نوجوانوں کی قابلیت کو دیمک کی مانند کھائے جا رہا ہے۔ ہمارا نصابِ تعلیم صرف کلرک جیسا ماتحت ہی تیار کر سکتا ہے۔ معاشرے میں لوگ صرف اس لئے تعلیم حاصل کرتے ہیں کہ اپنے پیٹ بھر سکیں، جو تعلیم صرف دولت حاصل کرنے کے لئے حاصل کی جا رہی ہو وہ تعلیم کبھی نوجوانوں کو عروج سے ہمکنار نہیں کر سکتی ہے۔

وہ قوم جو تعلیم ہی اس لئے حاصل کرے کہ وہ یہ تعلیم حاصل کر کے دولت کے انبار لگائے گی، کیرئیر بنائے گی وہ قوم ترقی کی راہ نہیں البتہ زوال کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے۔ تعلیم ہی وہ راستہ ہے جو کسی قوم کی منزل کی تعین کرتا ہے۔ جس قوم کو جیسی بھی تعلیم دی جائے گی اس میں ویسا ہی شعور پیدا ہو گا۔ اگر تعلیم اچھی، معیاری اور سائنسی ہو گی تو قوم کی سوچ بھی مثبت ہو گی۔

افسوس کی بات ہے کہ ہمارا نصابِ تعلیم وہ صدیوں پرانا ہے جو ایک غلام قوم کے لئے رائج کیا گیا تھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قوم کو باکردار، محبِ وطن اور با صلاحیت بنانے کے لئے قومی تعلیمی پالیسی اور نصاب کو یکساں بنیادوں پر ہر تعلیمی ادارہ میں عام کیا جانا بہت ضروری ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی اور نصاب کی اہمیت سے ہر کوئی واقف ہے تاہم چند ایک بنیادی چیزیں بیان کرنا اس لئے بھی ضروری ہیں کہ ملک و قوم کی ترقی کا راز معیاری تعلیم کا مرہونِ منت تو ہے ہی مگر اس کی بنیاد بھی قومی تعلیمی پالیسی اور نصاب ہی بنتا ہے۔

اس نصاب کے تحت نہ صرف قوم کے بچوں میں ملک وقوم کے تاریخی پس منظر کو عام کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ملک کی اساس، سالمیت، حصول کا مقصد اور ان کی زندگی کا مقصد بھی بیان کیا جاتا ہے تا کہ ان کو یہ معلوم ہو کہ انہوں نے اپنی آنے والی عملی زندگی کو کن خطوط پر استوار کرنا ہے اور وطن کی محبت کس طرح سے ساتھ لے کر چلنی ہے۔ شعبہ کوئی بھی ہو، ملک کی خدمت ملک کے اندر رہ کر ہی کرنی ہے نہ کہ پڑھ لکھ کر غیر ممالک کا رخ کرنا ہے اور پھر وہیں کا ہو کر رہ جانا ہے۔

 اچھا معیاری نصابِ تعلیم ہی معیارِ تعلیم کی بہتری اور بلندی کا ضامن ہوتا ہے۔ اچھے نصاب سے مراد ایسا نصاب ہے جو قومی اور بین الاقوامی ضرورتوں اور تقاضوں کا ساتھ دینے کا اہل ہو اور جو ہمہ وقت لچکدارہو، جمود کا شکار نہ ہو۔ اس میں بچوں کی ذہنی، جسمانی، نفسیاتی، معاشرتی، نظریاتی، تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور سب سے بڑھ کر بچوں کو مانوس سا لگے۔

نیز یہ کہ کہ محض کمرہ جماعت کی تدریس تک محدود نہ ہو بلکہ اس کی تعلیمی سرگرمیوں میں مشاہدہ، تجربہ اور عملی کام کرنے کے محرکات بھی موجود ہوں لیکن اگر نصاب ایسا نہیں ہے تو اچھے اساتذاہ اور اچھے طلباء ہونے کے باوجود تعلیم کا عمل غیر دلچسپ، غیر مٴوثر اور بے بار ثابت ہو گا۔
 ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ ہمیشہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کا نصاب قومی سطح پر ایک یعنی یکساں نصابِ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی زبان میں ہو۔

نصاب کا قومی زبان میں ہونا اس لئے بہت ضروری ہے کہ کوئی دوسری زبان خواہ کتنی وسیع اور فصیح کیوں نہ ہو، قومی زبان کی متبادل نہیں ہو سکتی۔ قومی زبان میں دوسری زبانوں کی نسبت بچے کے ثقافتی اور معاشرتی ماحول کی تفصیلات کو زیادہ کامیابی کے ساتھ بیان کرنے کی بہت بڑی قوت موجود ہوتی ہے۔ اپنی زبان میں تعلیم سے علاقائی تہذیب و تمدن، ثقافت، تاریخی روایات سے بہتر طریقے سے شناسائی پیدا ہو سکتی ہے۔

اظہار کی پوری قوت پیدا کرنے کا وسیلہ قومی زبان کے سوا کوئی دوسری زبان نہیں ہو سکتی۔ محسوسات کے اظہار کے لئے خارجی زبانیں بالکل غیر موثر ثابت ہوتی ہیں اس لئے کہ ان کو وہ جذباتی مرتبہ حاصل نہیں ہو سکتا جو اپنی زبان اور اس کے الفاظ بچپن ہی میں حاصل کر چکتے ہیں جب کہ جذباتی زندگی کی بنیاد پڑتی ہے۔ قومی زبان کو اس لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ اختلافِ زبان قدرت کاملہ کا ایک ایسا اعجاز ہے جس کا اثر وقتی نہیں بلکہ مستقل ہے۔

اس لئے ضروری ہے کہ اپنے نصابِ تعلیم کو قومی زبان میں ہونا چاہئے جس کے لئے دنیا بھر کے تمام علوم کی کتابوں کا قومی زبان اردو میں ترجمہ کیا جانا چاہئے۔ اس طرح بچوں کے لئے انہیں سمجھنا اور سیکھنا آسان ہو جائے گا۔
 وطنِ عزیز کی سرکاری درس گاہوں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے والے طالب علموں کو ایک منجمند اور خاص نوع کا نصاب پڑھایا جاتا ہے جس کا زمانہ حال کے کے سیاسی، معاشی، ثقافتی اور معروضی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جب کہ ماضی قریب اور بعید سمیت مخصوص تاریخی حقائق چھپائے جاتے ہیں۔

ہم طبقات میں تقسیم ایک معاشرہ ہیں۔ اشرافیہ کی اولادیں تو امریکہ اور برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا سلیبس پڑھ کر ہم پر حکومت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جب کہ دوسری طرف غریب کا بچہ سہولتوں سے محروم عام سکول کے نصاب سے مستفید ہو کر زیادہ سے زیادہ رعایا ہی بن سکتا ہے۔
 قیامِ پاکستان سے آج تک ہم جن مسائل و بحرانوں سے دوچار ہیں ان کی کئی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ طبقاتی نظام ہائے تعلیم ہیں۔

معاشی لحاظ سے تین طبقے امیر، ،متوسط اور غریب تو پہلی ہی سے موجود تھے اور موجود ہیں مگر تعلیم جو سب کے لئے ایک جیسی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے اسے نوزائیدہ مملکت کے وقت سے ہی مختلف طبقاتمیں واضح طور پر تقسیم کر کیا گیا ہے گویا تعلیم کے عمومی اور خصوصی مقاصد کو پسِ پشت ڈال کر قوم کو مختلف گروہوں، طبقوں اور کلاسز میں بانٹ کر قومی یکجہتی، ملکی سالمیت اور عوامی بقاء کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔

 تمام تعلیمی ادارے خواہ سرکاری، نیم سرکاری، پرائیویٹ یا دیگر ہوں وہ سب یکساں و معیاری نصابِ تعلیم کو اپنانے کے لازماً پابند ہوں۔ تمام صوبے اپنے طلباء و طالبات کو قومی یا مقامی نامزد کردہ مستند و معیاری ادارے کی ایک جیسی ٹیکسٹ بک پڑھائیں، پرائیویٹ سکولز بھی انہی کتب سے استفادہ کریں۔ ہر سبجیکٹ کے لئے ایک ہی جامع ٹیکسٹ بک ہو جو ایک لمبے عرصہ کے لئے متعارف کرائی جائے۔

معیاری و جامع درسی کتب، تربیت اساتذاہ کا بہترین، آسان، براہِ راست اور کفایت شعاری ذریعہ بھی ہیں۔ یہ رہنمائے اساتذاہ کے ساتھ ساتھ رہنما طلباء بھی ثابت ہوں گی یہ کتب دلچسپ، قابلِ فہم، علمی و تحقیقی نوعیت کی ہونا بے حد ضروری ہیں۔ یکساں و معیاری ٹیکسٹ بکس کے علاوہ طالب علموں کو کسی اور قسم کی کتب و لٹریچر کسی کی جانب سے خریدنے کی اجازت نہیں دی جائے۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد ہر صوبے نے اپنا اپنا نصابِ تعلیم دینا شروع کر دیا ہے جس سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں بلکہ مستقبل میں اور ہی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اربابِ اختیار کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نصاب میں کون سی کتاب اور کون سا مواد ہونا چاہئے؟ نصاب سے کون سا مواد خارج ہونا چاہئے؟ یہ اور نصاب سے جڑے ایسے تمام معاملات اور امور کا اختیار صوبوں سے لے کر ایچ ای سی کے سپرد کر دیا جانا چاہئے۔

 
 ہمیشہ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جن کا نصاب قومی سطح پر ایک یعنی یکساں نصابِ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی زبان میں ہو۔ چند مضامین کے علاوہ باقی تمام مضامین کا یکساں ہونا نہایت ضروری ہے۔ ہمارے سامنے پوری دنیا میں ترقی یافتہ ملکوں کی مثالیں ہیں، جنہوں نے یکساں نصابِ تعلیم کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر تعلیمی میدان میں ترقی کی منزلیں طے کے ہیں۔

یکساں نصاب کے ساتھ زبان کا بھی بڑا اہم کردار رہا ہے۔ ہمیشہ اپنی زبان خصوصاً مادری زبان میں زیادہ اچھے طریقے سے ابلاغ ہوتا ہے ہم انگریزی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ساری ترقی اسی میں چھپی ہوئی ہے حالانکہ یہ بالکل سو فیصد غلط خیال ہے۔ انگریزی کو اختیاری مضمون کے پڑھایا جائے جو اس زبان میں دلچسپی لیتا ہو وہ پڑھے لازماً نہ ہو۔ اس وقت پرائمری، ثانوی اور کالج کی سطح تک نافذ نصاب میں بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں۔

جب سے پاکستان میں غیر ملکی فنڈنگ نے زور پکڑا ہے پرائمری سطح کے نصاب میں ملکی اقدار کو پسِ پشت ڈال کر حکومت کو فنڈنگ کرنے والے ممالک اور این جی اوز کی من مرضی کا نصاب طلباء و طالبات اور اساتذاہ پر تھوپا جانے کی روایت بہت تیزی سے پروان چڑھی ہے۔ تعلیم کے میدان میں در آنے والی غیر ملکی بدعت کی وجہ سے بہت سے مضامین میں طلباء کی ذہنی استعداد اور صلاحیت کو یکسرنظر انداز کر کے نہایت مشکل اور ثقیل مواد کو نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

نصاب کی تشکیل میں چند عوامل کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے یہ کہ ہماری آبادی کا مجموعی شعور کیا ہے؟ کیا مروجہ نصاب طلباء و طالبات کی عمر کے لحاظ سے ان کی ذہنی صلاحیت کے عین مطابق ہے؟ کیا نصاب قومی امنگوں اور ضروریات کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟ جب تک ہمارے سکولوں، کالجوں کا نصاب طلباء و طالبات کی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق نہیں ہو گا، اس وقت تک نئی نسل کی بہتر انداز میں تربیت کا خواب خواب ہی رہے گا۔

 ہمارے ہاں تعلیم کے شعبے اور شرح خواندگی کی اصل صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اگر چہ حکومتی سطح پر اس حوالے سے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن سبھی جانتے ہیں کہ ان میں سے بمشکل آدھے ہی سچ ہوتے ہوں گے۔ ہمارے ملک میں سرکاری سکولوں کی حالت تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی، سینکڑوں سکول ایسے ہیں جن کی اپنی بلڈنگ نہیں ہے، جن کے پاس بلڈنگ ہے ان کے پاس اساتذاہ کی تعداد طلباء کی نفری سے مطابق نہیں ہے اور جہاں یہ دونوں سہولتیں موجود ہیں وہاں طلبا و اساتذاہ کے لئے ضروری لوازمات نہیں ہیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران شرح خواندگی یا تعلیم کا معیار بڑھانے کے جتنے بھی اہداف مقرر کئے گئے ان میں سے شائد ایک بھی پورا نہ ہو سکا جب کہ ہمارے بعد آزاد ہونے والے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں تعلیم کا معیار ہم سے بہتر اور شرح خواندگی زیادہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیمی شعبے کو عملی طور پر کم اہمیت دی جاتی ہے۔

حالات کا تقاضا ہے کہ ماضی میں اس شعبے کو جتنا نظر انداز کیا گیا اب اس کی طرف اتنی ہی زیادہ توجہ دی جائے تا کہ اس شعبے کی ترقی کے لئے جو اہداف مقرر کئے جاتے ہیں وہ پورے ہو سکیں لیکن افسوس ہوتا ہے کہ اس کے برعکس اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ملک و قوم کی ترقی میں گزرنے والا ہر لمحہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس وقت جس برق رفتاری سے دنیا میں ترقی کے مراحل طے کئے جا رہے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہونے کے لئے ترقی پزیر ممالک اپنی دوڑ کو تیز کر رہے ہیں، اس موقع پر وقت کم اور کام زیادہ کرنے کا فارمولہ کار آمد رہے گا کیونکہ تیسری دنیا کے ممالک جن میں خاص طور پر وطنِ عزیز شامل ہے ترقی کا خواہاں ہے اور اس سلسلے میں دن رات محنت بھی کر رہا ہے کہ کسی بھی طرح سے قوم کے قابل اور ذہین عوام کے بل بوتے پر ترقی کی وہ تمام منازل جلد سے جلد طے کر لی جائیں جن کی بنیاد پر ہم سب کو بحیثیتِ قوم ایک ہونے کا دعویٰ ثابت کرنا ہے اور ان تمام بحرانوں سے نکلنا ہے جو ہماری ہی غلطیوں کوتاہیوں کے باعث پیدا ہوئے ہیں۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انسان نے اپنی تباہی کا بندوبست ہمیشہ سے خود ہی کیا ہے اور مفاد پرستی، جھوٹی انا، جھوٹی سیاست اور اقرباء پروری نے ہمارے راستے جدا کر دئیے ہیں۔ مگر ابھی وقت ہمارے ہاتھ میں ہے اور ترقی کی راہیں ہماری منتظر ہیں تاہم ان کو پانے اور ان پر چلنے کے لئے ہمیں اپنی قومی پالیسیوں کو فعال بنانا ہو گا۔ اس تناظر میں تعلیم کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

yaksaa qaumi taleemi policy aur yaksan nasaab ki hakomati khwahish is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 April 2020 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.