یومِ پاکستان کا پس منظر اور ہم

وائسرائے ہند یہ بھاپ چکا تھا کہ قائد اعظم 23 مارچ 1940 ءء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے ستائسویں اجلاس میں باقاعدہ اعلان کردینگے، انتظامیہ نے حالات خراب کرنے کے لئے فسادات کروائے

mufti mohiuddin ahmed mansoori مفتی محی الدین احمد منصوری پیر 23 مارچ 2020

Youm e Pakistan ka Pass Manzar Or Hum
مسلمانوں کے پاس سوائے اس کے کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ وہ علیحدہ وطن کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ، انگریز اور کانگریس کی گٹھ جوڑ سے یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ مسلمانانِ ہند کا مستقبل تابناک ہے مسلم لیگی قیادت اور قائد اعظم محمدعلی جناح پرہندو اور ان کی جماعت کانگریس کی منافقانہ پالیسی واضح ہوچکی تھی، وہ دیکھ چکے تھے کہ ماضی میں ہندوؤں کی تمام تحریکیں خاص کرکے ہندی تحریک، آریہ سماج تحریک، گاؤرکھشا تحریک ، شدھی تحریک کا اصل محرک مسلمانوں کو زک پہنچانا تھا ہندو کوئی موقع مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان پہنچانے کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، ان حالات کے پیش نظر مسلم لیگی قیادت نے مسلمانوں کے لئے مطالبہء وطن کا اصولی فیصلہ کرلیا تھا اب صرف باضابطہء اعلان کرنا باقی تھا، واسرائے ہند یہ بھاپ چکا تھا کہ قائد اعظم 23 مارچ 1940 ءء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے ستائسویں اجلاس میں باقاعدہ اعلان کردینگے، انتظامیہ نے حالات خراب کرنے کے لئے فسادات کروائے 34کے قریب آزادی کے متوالوں کو شہید کردیا پورے صوبے میں 144 نافذ کرکے کرفیو لگادیا گیا تاکہ مسلم لیگ اپنا تاریخی جلسہ نا کرسکے اس کے ساتھ قائد اعظم  پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنا جلسہ ملتوی کریں پر آپ نہیں مانے ، ان سنگین حالات کے باوجودمنٹو پارک میں موجود لاکھوں فرزندانِ اسلام کے فلگ شگاف نعروں سے شہرِ لاہور گونج رہاتھا جلسے کے تیسرے روز جب جلسہ عین شبات پہ تھا شیربنگال مولوی ابولقاسم فضل الحق اسٹیج پر تشریف لائیے اور مسلم امہ کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے دو قومی نظرئے کے تحت قرار داد پاکستان پیش کی، قرار داد پیش کرنا تھا کہ پنڈال میں موجود لاکھوں کے مجمع نے پرجوش انداز میں قرار داد کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے فلگ شگاف نعرہ بلند کیا گویا ان کے ولولہ انگیز نعروں سے وائسرائے ہندوستان کے محلات میں شگاف پڑگئے ہوں، قرار داد پیش کرنے سے پہلے قائد اعظم  نے مقاصدِقرار داد لاہور کچھ یوں بیان فرمایا! ”حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے قومی تصور اور ہندو دھرم کے سماجی طور طریقوں کو باہمی ا ختلافات کو محض وہم گمان بتانا ہندوستان کی تاریخ جھٹلانے کے مترادف ہے ایک ہزار سال سے ہندوؤں کی تہذیب اور مسلمانوں کی تہذیب ایک دوسرے سے متصادم ہیں دونوں قومیں آپس میں میل جول رکھتی رہی ہیں لیکن ان کے اختلافات اسی پرانی شدت سے موجود ہیں اس لئے یہ نظریہء پیش کرنا کہ ہندو اور مسلمان ایک قوم بن جائیں تو انقلاب آجائے گا ایک خیالِ خام ہے یہ دونوں قومیں مختلف ہیں ان کی تہذیبیں مختلف ہیں ان کا کسی طور پر اتحاد ممکن نہیں“ آپ نے مزید فرمایا ! ”اسلام اور ہندو دھرم محض مذہب نہیں بلکہ درحقیقت دو مختلف معاشرتی نظام بھی ہیں، ہندو اور مسلمانوں کے بارے میں یہ سوچنا کہ وہ مل کرکوئی مشترکہ قومیت کو جنم دے سکیں گے تو سراسر غلط ہے، ہندو اور مسلمان آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے ایک دسترخوان پر کھانا نہیں کھاتے، ان کی مختلف تہذیبیں ہیں، ایسی تہذیبیں جو ایک دوسرے کی ضدہیں اور اکثرایک دوسرے سے متصادم رہتی ہیں، ہندوؤں اور مسلمانوں کے تاریخی وسائل اور ماخذ مختلف ہیں، اس لئے ان دونوں کے لئے بنایا گیا کوئی بھی مشترکہ آئین خاک میں مل جائے گا“۔

(جاری ہے)

قائداعظم کے بیانیہ سے مقاصدِ حصول وطن بلکل واضح تھا ” ایک فلاحی اسلامی ریاست کا قیام “ اس وقت کے علماء اکرام، سیاستدان، دانشور ، وکلاء ، تاجر سمیت تمام طبقات اورشعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بارہا مرتبہ قائد اعظم سے مقصدِ حصولِ پاکستان کے متعلق استفسار کیا اور بار بار کیا اور آپ نے ہربار نہایت تحمل ، جرت اور استقامت کے ساتھ اس کا جواب دیا کہ مسلمانوں کے لئے ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست جس کا آئین عین قرآن پاک اور سنت کے مطابق ہو اتنی وضاحت کا مقصد یہ تھا کہ کسی قسم کی شک کی گنجائش نارہیں، بلکہ پاکستان کے اعلان کے بعدجولائی 1947ءء کو علامہ شبیراحمد عثمانی اور علماء اکرام کے وفد کے ساتھ مزید وضاحت کے ساتھ مقاصد پاکستان کو کچھ یوں بیان کیاکہ ” پاکستان میں قرآنی آئین ہوگا میں نے قرآن پاک مع ترجمہ پڑھاہے اور میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ قرآنی آئین سے بڑھ کر کوئی آئین نہیں ہوسکتا، قائدکے اسی خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ کے قریبی ساتھی اور تحریک آزادی کے عظیم رہنما شیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانی  نے 9 مارچ 1949ءء کے دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد انہی اصول وضوابط پہ پیش کی جن اصول وضوابظ پر 23مارچ1940ءء کو قرار داد پاکستان پیش کیا گیا تھا، بعدازاں 73ء کا آئین بھی انہی اصول پر ترتیب دیاگیا، اس میں دو رائے نہیں کہ 23مارچ1940ءء کی قرارداد نے براعظم ہند کے مسلمانوں میں ایک تازہ روح پھونک دی مسلمانوں کو ایک غیرمتزلزل منزل کا واضح تصور مل گیا مسلمانوں کو قطعی طورپر یہ شعور حاصل ہوا کہ انہیں اب بہرصورت اپنا ملک حاصل کرنا ہے اس ایک نقطے نے مسلمانوں کو متحد ہونے میں مدد دی، بلاآخر لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد مسلمان ایک ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے،
ملک خداداد پاکستان کا پس منظر روزِروشن کی طرح واضح ہے پھرآخر کیا وجہ ہے کہ ایک عشرے سے ملک خداداد پاکستان کو سکولر اسٹیٹ ثابت کرنے کی تابڑ ٹوڑ کوشش کی جارہی ہے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک پاکستان کا کوئی پس منظر نہیں بلکہ قائد کے اس عظیم نظرئے اور مقاصد کو تقویت پہنچانے کے بجائے سوچی سمجھی سازش کے تحت کنفیوزن پیدا کیا جارہاہے ، اسلامی تہذیب و تمدن بلکہ اسلامی تشخص کا مذاق اڑیا جارہا ہے اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تحریک آزادی انگریز کے خلاف تھی اسلامی ریاست کے لئے نہیں تھی جبکہ بانی ء پاکستان فرماتے ہیں” پاکستان کا مطلب صرف آزادی ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب اسلامی نظریہ بھی ہے “ ایسا لگتا ہے کہ ملحدین کی ایک جماعت بین الاقوامی سازش کے تحت ملکِ خداداد سے دین کو ختم کرنے کے منصوبے پر شدت سے عمل پیرا ہے جن کی بڑی تعداد ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے وابستہ ہے وہ اکثر نعرہ لگاتے ہوئے نظرآتا ہے کہ ہمارا آئیڈیل مصطفے کمال پاشا ہے اور یہاں پاکستان میں روشن خیال اسلام چلے گا علماء کا دقیانوسی اسلام نہیں چلے گا، اصل میں ان لوگوں نے وہ داستانِ غم نہیں سنی انہیں ان جگرخراش حادثات کا ادراک نہیں کہ کیسے ہندوؤں اور سیکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا کیسے وحشانہ قتلِ عام سے شہر کے شہر بستیوں کے بستیاں اجاڑڈالی،اور کتنی مشکلوں کے ساتھ اسلامی ریاست کا قیام وجود میں آیا اسلامی تہذیب کی جگہ فرنگی تہذیب فواحش و منکرات اور عریانی پر مبنی ہندو تہذیب کے دلدادہ لوگ کیا جانے کہ ملک خداد پاکستان کا پس منظر کیا ہے، ہمیں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ ملکِ خداداد میں اسلام کے سیاسی و معاشی نظام کو نظرانداز کیا جارہاہے بلکہ قائداعظم کے بعد اس پاکستان پر ان موقع پرست سرکاری ملازمین اور نوکرشاہی نے غاصبانہ قبضہ کرلیا جو کبھی تحریک پاکستان کے حق میں نہیں تھے، اللہ بزرگ و برتر نے پاکستان کی شکل میں ہمیں ایک اسلامی ریاست عطاکیا تاکہ ہم اسلام کے سیاسی و معاشی نظام قائم کرسکیں اور دنیا کو ایک نمونہ دکھائیں، پاکستان لاکھوں شہیدوں اور ہمارے اسلاف کی امانت ہے اس دارالاسلام کو لادینیت اور لسانیت سے پاک کرنا ہر مسلمان اور پاکستانی کی ذمہ داری ہے ہماری عزت وقار عظمت اسی پر مضمر ہے اور یہی قرار داد پاکستان کا ماخذ ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ پاکستان کو اسلامی نہج پر مستحکم فرمائیں آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Youm e Pakistan ka Pass Manzar Or Hum is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.