”کرونا کی شدید لہراور سیاست“

پیر 30 نومبر 2020

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

کرونا کی دوسری شدید لہر نے پور ی دنیا میں صف ماتم بچھادی ہے ۔ لیکن قطع نظر امیر اور غریب مختلف ممالک کے سب لوگ متاثر ہورہے ہیں ۔یہی حال پاکستان کا ہے جو 1947ء سے غریب اور بے روز گاری سے لڑرہا ہے ۔ بد قسمتی سے ہر آنے والی حکومت سابقہ حکومت پر تمام ذمہ داریاں ڈال کراپنی صبح نو کا آغاز کرتا ہے ۔ اور نئے وعدوں سے اپنا عرصہ حکومت گزارنے کی کوشش کرتا ہے ۔

رواں سال کے اوائل میں کرونا جیسے موذی مرض سے حکومت نے سمال لاک ڈاؤن اور ماسک پالیسی سے بہت سارے نقصان سے بچانے کی تد بیر اختیار کی اوررب کریم نے بہت زیادہ جانی نقصان سے ہمیں محفوظ رکھا ۔ اپوزیشن رہنماؤں نے ابتدا ء ہی میں مکمل لاک ڈاؤن کی تجویزدی۔ لیکن حکومت کی ملکی معیشت کا ادارک تھا اور پو زیشن کی چالوں سے بھی باخبر ہونے کی بنا پر اس آخری حل سے اجتناب کیا۔

(جاری ہے)

حالیہ دوسری لہر کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق تو ہے کہ دوسری لہر واقعی شدید اور پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ۔لیکن اپوزیشن رہنما رابطہ عوام مہم اور جنوری 2021ء تک اپنے ہد ف تک پہنچنا چاہتی ہے ۔ اسی پے وہ جلسوں کے انقعاد پر بضد ہے جبکہ حکومت دوسری لہر کی شدت کی آگاہی مہم جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اپوزیشن کو بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ تمام جلسے منسوخ کردیں اور ”یار زندہ محبت باقی “ کے مصداق بعد میں سیاست بھی ہوتی رہے گی اور جلسے بھی ہوجائیں گے ۔

اپوزیشن کو یہ بھی کہا رجا رہاہے کہ آپ بلاول ھاؤس کراچی میں ہونے والی تقریبات میں تو اس قدر حساس ہیں کہ چند مہمانوں کو بلانے اور انہیں بھی کرونا نیگٹو کا سرٹیفکیٹ ای میل کرنا لازمی قرار دیا ہے لیکن جلسہ عام میں غریب کا رکنوں کو جمع کرکے کرونا پھیلانے کا منظم اہتمام کیا جارہاہے ۔ اپوزیشن حکومت کو جواباً یہ پیغام دیتی ہے کہ اگرحکومت جلسے کرے تو ٹھیک جبکہ اپوزیشن کے جلسوں سے کرونا کیسے پھیلتا ہے ؟
قارئین کرام پاکستان میں عام آدمی مخمعے کا شکار ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کرونا کی حالیہ لہر کا وجود ہے بھی کہ نہیں ؟ حکومتی ذمہ داران ہوں یا پھر اپوزیشن کے رہنما ہوں وہ تو اپنے جلسوں میں ماسک جیسی احتیاطی تدا بیر کرلیتے ہیں لیکن جلسوں میں شرکت کرنے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔

تعلیمی ادارے، شادہ ھال، ریسٹورینٹ بند کردیے گئے اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لئے مشاعرت جاری ہے ۔ یقیناً ہوائی سفر او ردیگر آمدروفت کے ذرائع پر بھی پابندی لگائی جاسکتی ہے ۔ ماسک نہ پہننے پر جرمانے کی سزائیں بھی ہونگی لیکن اپوزیشن اپنے جلسے ہر حال میں منعقد کرنے پر بضد نظر آتی ہے ۔ اپوزیش کے جلسوں میں اب ملتان م یں بڑا جلسہ ہونا ہے جس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں ۔

حالانکہ کرونا کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملتان میں کرونا کے مریض سب سے زیادہ ہیں ۔ اوپر سے یہ جلسہ مزید تباہی پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے ۔ ستم بالا ستم کہ جنوبی پنجاب سے اپوزیشن رہنما فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ملتان میں ہونے والے جلسے سے قبل ہی حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ چونکہ وہ ہر صورت میں جلسہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں تو چند اپوزیشن کے مقامی رہنماؤں نے جلسہ گاہ کے دروازے پر بڑے تالے توڑ دیے ہیں ۔

جس پر ان لوگوں کے خلاف قانون بھی حرکت میں آیا اور گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔
اپوزیشن کے جلسہ عام سے جہاں کرونا وبا مزید پھیلا ؤ کا باعث بنے گی وہیں پر جنوبی پنجاب کے کل کے دشمن آج کے دوست بن کر سیٹح پر موجود ہونگے۔ زرا چشم تصور سے دیکھیں تو ڈیرہ غازی خان سے صوبائی جنرل سکریٹری سردار اویس خان لغاری اپنے کارکنان کا ایک جلوس لیکر ملتان کے لئے رواں دواں ہوگا تو دوسری طرف سردار دوست محمد خان کھوسہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں میں اپنے ترنگے کے سائے میں جلسہ گاہ کی طرف گامزن ہوگا۔


کارکنان کے ساتھ دونوں جانب سے اپنی اقوام کے غریب صدیوں سے محکوم ذہنت کے لوگ اپنے سرداروں کے حق میں نعروں کے جوش میں ایک دوسرے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہونگے تاکہ اپنے چیف اور سردار کی نگاہ میں آسکیں ۔ اور آئندہ انتخابات میں پھر ایک دوسرے کو خوب لتاڑرہے ہونگے۔ ملتان کا جلسہ میں یہ دونوں باتیں دیکھنے کو ملیں گی۔ کرونا پھیلاؤ میں پارٹیوں کاکردار او رتحریک انصٓف میں بھرتی ہر پارٹی سے رہنما اقتدار کے پرچم تلے ایک ہیں تو اس ملتان کے جلسے میں بھی نظر یاتی طو رپر ایک دوسرے کو ناپسند کرنے والے رہنما ایک نوجوان قائد بلاول زرداری اور مفرور قائد کی بیٹی کے سامنے کھڑے ہوکر قائدین کی خوشامد میں تالیاں بجارہے ہونگے۔

گزشتہ جلسوں کی طرح ملتان میں ہونے والے جلسے سے اپوزیشن بری طرح عوامی نظروں سے گرچکی ہوگی۔ جنوبی پنجاب کے اہل فرو نظر کرونا کی حالیہ لہر سے شدید پریشان ہیں اور وہ زیدہ تر ملتان کے اعداو شمار کو دیکھ کر گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں۔ملتان سے بھی مجبور اور بے بس لوگوں کو جلسہ عام کے لئے گھروں سے نکالا جا ئے گا۔ جلسہ کا میاب ہویا ناکام کرونا کی یہ مہلک پر ملتان اور گرودنواح کے لوگوں کے لیئے تباہ کن ہوسکتی ہے ۔

اپوزیشن رہنما ملتان میں ہونے والے جانی نقصانات میں اضافہ سے کامیاب و کامران ہونگے ۔ ملتان کے ساتھ ڈیرہ غازی اور بہا ولپور ڈویژن میں اس موذی اور متعدی مرض کے پھیلاؤ کے ذمہ دار اپوزیشن رہنما ہونگے جنہیں متوقع مزید اموات کا ذمہ دار سمجھا جائیگا اور آئندہ عام انتخابات میں جواب دہ ہونا پڑیگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :