ڈائجسٹ کہانی

جمعہ 27 ستمبر 2019

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

ہمیں حال ہی میں ایک شخصیت کی جانب سے فرمائش موصول ہوئی کہ ہم اپنے لکھنے کی خدا داد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے چپو کی طرح استعمال کرکے قوم کی ڈوبتی ناؤ کو منجھادار سے نکالنے کے لیے دلوں میں آگ لگانے والے اصطلاحی ناول تحریر کریں اور ڈائجسٹ"تیرا غم ،میراغم" کے شمارہ نمبر 000میں شائع کروائیں کیوں کہ موصوف/محترمہ کی نظر میں صرف وہی ایک ڈائجسٹ ملک وقوم کی قسمت سدھار سکتا ہے۔

قارعین اب اگر بات صرف یہاں تک ہی رہتی ہم بھی اسے اپنے لئے اعزاز گردانتے کہ دیکھوں میاں اب ہم بھی اس قابل ہوگئے ہیں کہ دھڑا دھڑ ناول دھڑی کے حساب سے لکھ سکتے ہیں،لیکن جونہی دلوں میں آگ لگانے والے اصطلاحی ڈائجسٹ "تیرا غم ،میرا غم" کے لیے ہم نے ناول لکھنے کا ارادہ کیا تو اول تو ناول کے لیے کوئی کہانی ہمارے دماغ میں نہ آئی جس پر ہم نے فوراَ مطلقہ شخصیت سے اس سلسلے میں رہنمائی کی درخواست کی ،جوابی لفافے میں ہمیں عنوان کے نام کے ساتھ ساتھ پانچ کرداروں کے نام اور ایک ہدایت نامہ بھی موصول ہوا جس میں ناول کی ابتداء سے ہی اول کرداروں "صمدو ، حمدو ،ممدو،شیلی ،نیلی"کو باہم لڑانے ،ناول کی انتہا پر غریب کرداروں "صمدو ، حمدو ،ممدو،شیلی ،نیلی"محبت کی انتہا پر دکھانے اور ناول کے اختتام پر بے چارے "صمدو ، حمدو ،ممدو،شیلی ،نیلی"کو ہنسی خوشی زندگی گزارتے دیکھانے کا حکم صادر کیا گیا تھا،البتہ اس پورے منظر میں ہمیں بھی اس قدر آزادی دی گئی تھی کہ اگر ہم چاہیں تو مندرجہ بالا "صمدو ، حمدو ،ممدو،شیلی ،نیلی"کو پہاڑ،دریائی بستی یا شہر کے کسی بھی مقام پر لڑوا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)


کہانی کے بارے میں ہدایات پڑھ کر اس روز ہمیں تدارک ہوا کہ زمانہ طالب علمی میں ہم واقعی نااہل شخص تھے،ہم اپنی یونیورسٹی کے اساتذہ اکرام کی صحبت میں اتنا عرصہ گزارنے کے باوجود بھی کچھ نہ سیکھ پائے،ویسے یہ ملکہ بھی ان کا ہی خاصہ رہا کہ کیسے 9منٹ میں سمجھانے والی بات کو 90منٹ تک ادھر اُدھر کی ہانک کر طول دیا جاتاہے۔ہمیں تو اب تک ناول کے متعلق صرف اس قدر ہی معلوم ہے کہ ناول کا آغاز انگریزی ادب سے ہوتا ہوا اردو تک پہنچا اور ڈائجسٹوں کی دنیا میں پہنچتے پہنچتے انگریزی حروف ڈائجسٹ ہوہوکر آدھ موا ہو کر رہ گیا،ایک حسین وقت میں اردو ناول نے بھی خوب معاشرتی اصطلاح کی اور مراةالعروس ،فسانہ آزاد،فردوس بریں جیسے بے شمار نادر جواہر ات کا ادب میں بھی اضافہ ہوا ،لیکن زمانہ ڈائجسٹ تک پہنچتے پہنچتے نہ یہ اب تین میں باقی رہ پارہا ہے نہ تیرہ میں۔

ویسے اگر موصوف بالا چاہتے تو کہانی کے اندر سنسنی پیدا کرنے کے لیے دیگر حربے بھی استعمال کرسکتے تھے مثلاَ کردار وں کے درمیان باہمی نفرت کی محبت میں تبدیلی کی داستان،داستان حرم،داستان ناؤ نوش ،چھیڑ چھاڑ وغیرہ وغیرہ ویسے ناجانے کیوں مجھے ایک شعر بار بار یاد آرہا ہے۔بقول انشاء اللہ خاں
چھیڑنے کا تو مزہ جب ہے کہو اور سنو
بات میں تو تم خفا ہو گئے لو اور سنو
قارعین اب آپ خود ریسرچر بن کر اس شعر کی بال کی کھال یا کھال کی بال چاہے جو بھی ہے خود اتاریں۔میں تو چلا سونے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :