جہالت کا وائرس

جمعہ 14 اگست 2020

Ahmed Adeel

احمد عدیل

جو کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے وہ شاید اس قابل بھی نہیں کہ اسے بیان کیا جا سکے ․ جعل سازی ، دھوکہ ، فراڈ ، رشوت ، قتل و غارت اؤر سب سے بڑھ کر اخلاقیات کا فقدان، لیکن اب ایک اور چیز جو اپنی انتہا کو چھو رہی ہے وہ ہے اپنی سیاسی وابستگی کے لیے دوسروں کو ذلیل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک اور افواج پاکستان پر الزام تراشی․ جو لوگ یہ سب کر رہے ہیں انہیں شاید با لکل بھی اندازہ نہیں کہ ان کی گھٹیا الزام تراشی اور اخلاقیات سے گری ہوئی باتوں کو کیسے بھارتی چینلز پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ․ ہم بات بات پر اپنی نئی جنریشن کو گلوریفائی کرتے ہیں کہ ان میں بڑا ٹیلنٹ ہے یہ پاکستان کا اثاثہ ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن اگر آپ سوشل میڈیا پر یا اصل زندگی میں انہیں دیکھیں تو حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے․ بد قسمتی سے جو سیاسی ذہنی غلامی ہمارے جینز میں پائی جاتی ہے وہ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کی بجائے بہت زیادہ بڑی ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ سوشل میڈیا کے ایزی استعمال نے بندر کے ہاتھ میں بندق تھما دی ہے اور وہ بھی لوڈڈ، وہ بندوق ہر گروپ اپنے مخالف سیاسی و مذہبی دھڑوں پہ بے اختیار استعمال کر رہا ہے یہ سو چے سمجھے بغیر کہ سیاسی مخالفت میں وہ ملک اور فوج پر الزام لگا رہا ہے․ آپ دنیا کے کسی ملک چلے جائیں، سوشل میڈیا پر کسی انٹرنیشنل لبرل یا فریڈم آف سپیچ گروپ کو جائن کر لیں ، کسی لبرل یا مذہب مخالف گروپس سے ڈائیلاگ کر لیں وہاں آپ کو سب کچھ ملے گا سوائے وطن دشمنی کے، لیکن ہمارے یہاں ہر لبرل یا سیاسی بات کی ابتدا اور انتہا ہی ملک کے خلاف بات کرنے سے ہوتی ہے، چاہے وہ آخرت سے کہیں زیادہ اسی دنیا پر اعتبار کرنے والے نام نہاد مذہبی رہنما ہوں، ااقتدار کی ہوس میں اپنی نیلامیاں کر تے ان پڑھ اور غلاظت کی حد تک ا خلاقی دیوالیہ پن کا شکار کرپٹ سیاستدان یا پھر پڑھی لکھی ان پڑھ نوجوان نسل․
انگریزی میں ایک ٹرم استعمال ہوتی ہے Self Deceptionیعنی اپنے آپ کو دھوکہ دینا یہ جانتے ہوئے بھی سچائی وہ نہیں جسے ہم سچائی ثابت کرنے پر تلے ہوے ہیں یہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک بیماری ہے اگر آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہر دوسرا آ دمی آپ کو اسی بیماری کا شکار دکھائی گا جو اپنے جھوٹ یا جہالت کو ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد سے گزر جائے گا ․ بدقسمتی سے کچھ نام نہاد مذہبی اور کرپشن کی غلاظت میں لتھڑی سیاسی جماعتوں نے ہر قدم پر پاکستان مخالف جذبات کو نہ صرف ابھارا ہے بلکہ گاہے بگاہے انہیں اسی ملک کے خلاف استعمال کیا ہے جس کی مٹی نے ان لوگوں کو پناہ دی ہے ہماری جہالت نے مذہب کے نام پر ہمیں ان لوگوں کو ہاتھوں یرغمال بنایا ہوا ہے جن کے اباو اجداد کانگریسی مولوی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے فخر سے یہ کہتے رہے کہ شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں یہ اور بات ہے کہ پھر اسی ملک کی مٹی نے ان کو اپنے اندر جگہ دی․ ایک وہ ہیں جن کی آل اولاد برٹش نیشنل ہے اور جب بھی وہ اقتدار سے باہر ہوں سب سے پہلا کام افواج پاکستان کے خلاف بیان بازی ہوتی ہے جس میں ان کے ووٹرز اپنا حصہ بغیر کسی تردد کے ڈالتے ہیں ․ آپ انڈیا کی مثال لے لیں ہم نے ابھی نندن کا جہاز مار گرایا اور پوری دنیا کو ایک پیغام دیا گیا کہ ہم صرف تیار ہی نہیں بلکہ اس قابل بھی ہیں کہ اپنی حفاظت کر سکیں وہی دوسری طرف پاکستان کے ہاتھوں عبرتناک شکست کے باوجود ابھی نندن کہ ہیرو بنا کر پیش کیا گیا اور کسی سیاستدان یا لبرل نے اٹھ کر فوج پر چڑھائی نہیں کی ․
ایشوز پوری دنیا میں ہوتے ہیں عوام کو اپنے حکمرانوں یا اداروں سے گلے شکوے بھی ہوتے ہیں جب ان کی توقعات پوری نہ ہوں جو کہ بالکل جائز ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی سیاسی و مذہبی برتری ثابت کرنے کے لیے ادراوں کو رسوا کیا جائے اور ملک پر انگلی اٹھائی جائے ․
جن لوگوں کے لیے آپ اپنے اداروں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں وہ آپ کو اپنے جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے سیاسی وابستگی یا سیاستدانوں کے پرستش کر نے اور انہیں کسی بھی غلطی سے مبرا سمجھنے سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں ․ ان لوگوں کو ملک اور اداروں پر ترجیع نہ دیں اور نہ ان کر کرپشن کو ڈیفنڈ کریں جانے انجانے میں اس مٹی کے خلاف نہ جائیں جس نے آپ کو اور آپ کے اباو اجداد کو اپنی آغوش میں پناہ دی ہے جن لوگوں کے لیے آپ اپنی اخلاقیات کو پامال کر رہے ہیں ان کا نہ اس ملک سے کوئی لینا دینا ہے نہ یہاں کے باسیوں سے․ ان میں سے کوئی نیا صوبہ افغانیہ بنانے کا متمنی ہے تو کوئی سندھو دیش کا خواب آنکھوں میں سجائے کھڑا ہے ، کوئی پارک لین کا رہائشی ہے تو کسی کا بزنس ایمپائر سپین میں ہے ،کوئی مذہب کو ہتھیار بنا کر اپنی روٹیاں سینک رہا ہے تو کوئی سانئس کے پیچھے جہالت کا ڈانڈا لے کر دوڑ رہا ہے․ اور جن پر یہ سب مداری انگلیاں اٹھاتے ہیں وہی اس ملک کی سلامتی کی ضما نت ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :