کب بدلے گا پاکستان

بدھ 27 مارچ 2019

Ahmed Khan

احمد خان

سانحہ نیو زی لینڈ رونما ہو ئے چند دن ہوئے ہیں ، مگر دیکھ لیجئے کس دل جمعی سے وہاں کی حکومت حرکت میں آئی ، ادھر کرائسٹ چرچ میں ایک جنو نی نے مسلمانوں کا خون نا حق بہا یا ادھر کیوی خاتون وزیر اعظم سر عت کے ساتھ حرکت میں آگئی ، جا رڈن نے نہ صرف مسلم امہ کے زخموں پر مر ہم رکھا بلکہ مثالی یک جہتی اور لا زوال برتاؤ کی تاریخ بھی رقم کر لی ، حکومتی سطح پر دہشت گر د اور دہشت گر دی کے ناسور کے خاتمہ کے کے لیے خاتون وزیر اعظم نے وہ اقدامات اٹھا نے کی سعی کی جو ضروری تھے ، کل تک نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کو کو ئی جانتا تک نہ تھا ، آج مگر اسی خاتون کی ایک دنیا گر ویدہ ہو چکی ۔


 آج جارڈن کو اقوام عالم سلام کر رہی ہے ، مسلم امہ کو ایک طر ف کیجئے ، اقوام عالم اس بہادر خاتون کو کس طر ح سے خراج تحسین پیش کر رہی ہے ، یہ ہیں حقیقی حکمران ، جن کے دلو ں میں اپنے عوام کی تڑپ ہے ، جن کے دلوں میں عوام کا درد مو جزن ہے ، جن کا سونا جاگنا عوام کے لیے ہے ، زندہ اقوام ہمیشہ تاریخ سے سبق سیکھا کر تی ہیں ، اس کے مقابل ذرا اپنے وطن عزیز کے حکمرانوں کے چال چلن اور سج دھج پر بھی نگاہ غلط ڈال لینے کی زحمت کر لیجئے ۔

(جاری ہے)

نیوزی لینڈ میں ایک جان لیواسانحہ رونما ہوا اور پورے نیوزی لینڈ کو تبدیل کر گیا ، ہمارے ہاں اس سے کہیں زیادہ سنگین اور الم ناک سانحات رونما ہو ئے ۔ سانحہ اجڑی کیمپ کو بھلا کو ن بھو ل سکتا ہے ، سانحہ کار سازکوذرا یا د کیجئے ، بھلا بے نظیر کی موت کو ئی بھولنے والی ہے ، سانحہ آرمی پبلک سکول کی الم ناکی دلوں پر نقش ہے ، لگے کئی سالوں سے دہشت گر دی کے ہاتھوں ہم اپنے پیارے گنواتے رہے ، مر نے والے مر تے رہے اور ان کے پیارے ان کے غم میں سسکتے بلکتے رہے ، جواباً حکمرانو ں کی فوج ظفر مو ج کیا گل کھلاتی رہی ۔

نپے تلے الفاظ میں مذامتی بیانات کے علاوہ عملاًکیا کیا گیا ؟ کچھ بھی تو نہیں ، ایک کے بعد ایک دہشت گر دی کے واقعات ہو تے رہے حکمران مگر ٹس سے مس نہ ہو ئے ، ہم سب کو خوب اچھی طر ح یاد ہے ، سانحہ آرمی پبلک سکول کے وقت کیا کیا دعوے کے گئے ، عوام کے دل کس طر ح سے لبھا ئے گئے ، غم زدہ خاندانوں کو کس کس طر ح سے تسلیاں دی گئیں ، عملا ً مگر کیا ہوا ، درا صل ہمارے ہاں ” مٹی پا ؤ“ حکمرانی سطح پر آزمود ہ طر یق کار ہے ، جیسے ہی کو ئی نا خوشگوواقعہ یا سانحہ پر وقت کی دھول جمتی ہے ، حکمران اس واقعہ سے اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں ، معاشرتی ،سماجی اور قومی سطح پر ہماری حکومتیں جب تک ٹھوس اقدامات کی رہ نہیں اپنا تی ، ہمارے معاملات اور معمولات سیدھے ہو نے والے نہیں ، دل کے کا عذ پر نو ٹ کر لیجئے ہٹو بچو قسم کے حکمرانی رویوں اور اقدامات سے وقتی طور پر عوام کو دلاسا دیا جاسکتا ہے ، مگر ایسے حکومتی اقدامات سے مسائل کا حل ممکن نہیں ، واقعتاً اگر مملکت خداداد پاکستان کو امن کا گہوار ہ بنا نا ہے ، وطن عزیز کو ترقی کے راہ پر گامزن کر نے کی آرزو ہمارے حکمرانوں کے دل میں مچل رہی ہے ۔

 حکمران واقعی عوام کی حالت زار بدلنا چا ہتے ہیں ، پھر ہماری حکومت کو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم والے طور طریقے اپنا نے ہو ں گے ، سماجی سطح پر قانون کی حکمرانی قائم کر نی ہو گی ، انصاف کے باب میں تیز تر انصاف کی فراہمی کے لیے ٹھوس اقدامات کر نے ہو ں گے ، معیشت کے میدان میں ” محمود و ایاز “ دونوں کی بہتری کے لیے پا لیسیاں رائج کر نی ہو ں گی ، ، تمام اداروں میں قانون کا بو ل بالا اور ظلم کا منہ کا لا کر نے کا رواج راسخ کر نا ہو گا ، دریا کو کو زے میں ہم یوں بند کر سکتے ہیں کہ وطن عزیز میں جب تک شیر اور بکری ایک گھا ٹ پر پا نی پینے کا ساماں نہیں کر یں گے اس وقت تک پاکستان کے حالات بہتری آنے سے رہی ،المیہ مگر کیا ہے ، خدا لگتی کہیے ۔

قائد اعظم کے بعد پاکستان میں کو ئی ایسا حکمران نہیں آیا جسے حقیقی معنوں میں پا کستانی عوام کے دکھ درد کا احساس ہو ، ہمارے ہاں جو بھی حکمران آئے انہیں ملکی اور عوامی مفاد سے زیادہ اپنے مفادات عزیز رہے ، اس کے نتائج کیا نکلے ، حکمران امیر سے امیر تر ہو چلے گئے ، جن کے پاس اقتدار میں آنے سے پہلے سائیکل تک نہ تھی ، اقتدار کی سنگھا سن میں قدم رکھنے کے بعد وہ ارب پتی بن گئے ، جہاں تک رہی بات عوام کی ، عوام کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ پتلی سے پتلی ہو تی چلی گئی ، وہ ممالک جو ہمارے بعد آزادی کے نعمت سے بہرہ مند ہو ئے وہ ہر لحاظ سے ہم سے آگے نکل گئے ، جبکہ ہمارا ملک حکمرا نوں کی نااہلیوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے قر ضوں میں ڈوبا ہوا ہے ، بات کہاں سے شروع ہو ئی کہاں نکل گئی ، مگر حقا ئق ہمیں یہی بتا تے ہیں کہ جب تک زندہ قوموں والے اطوار حکمرانی سطح پر ہم نہیں اپنا ئیں گے ، نیوزی لینڈ کی طر ح ہم نہیں بن سکتے ، پہلے خود کو نیوزی لینڈ کی طر ح بدلیں پھر دیکھیں ہمارے حالات کیسے بدلتے ہیں ،آزمائش شرط ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :