” اپنا اپنا سچ ، اپنی اپنی آزادی “

اتوار 3 مئی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

علم سیاسیات کی مشہور کہاوت کہہ لیجئے کہ جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہو تی ہے وہاں پر آپ کی آزادی ختم ہو تی ہے ، ہمارے ہاں مگر اپنی ناک کو اونچا رکھنے کے لیے دوسروں کی ناک توڑنے کی رسم عرو ج پاچکی ، اخلاقیات کیا ہے ، اقدار کیا ہیں ، آزادی اظہار کیا ہے ، اس سے ہمیں نہ کو ئی سروکار ہے نہ کو ئی لینا دینا ، آزادی اظہار کے لبادے میں یہا ں تک کا سفر طے کر نے میں اپنی اپنی جگہ ہم سب قصوروار ہیں ، دلیل کو دشنام کے قلب میں ڈھالنے والے کو ئی اور نہیں ہم خود ہیں ، ناگوار خاطر نہ گزرے تو ایک تصیح کر لیجئے ، صحافت محض شام چھ بجے سے رات بارہ بجے تک ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھنے والوں کا نام نہیں ، محض چند احباب کے نام کو پوری صحافت سمجھ لینا ، صحافت اور ان بے شمار گم نام صحافیوں کے ساتھ زیادتی ہے جو پوری ایمان داری سے اپنے فرائض ادا کر تے ہیں ، وقت اجازت دے تو کسی بھی اخبار کے دفتر تشریف لے جا ئیے ، خبر نویس ، سب ایڈ یٹر ، نیو ز ایڈ ٹیر ، میگزین ایڈیٹر سے لے کر دفتر کے نائب قاصد تک سے مل لیجئے ، وہ کس انہماک سے اپنے فرائض ادا کر تے ہیں ، ان کی تنخواہیں کتنی ہیں ، وہ کس طر ح سے گزر اوقات کر رہے ہیں ، ، ہماری بات پر قطاً اعتبار نہ کیجئے ، خود ان کی اصول پسندی ، ان کی ملنساری ، ان کا اخلاص ملا حظہ کیجئے ، کتنے ہی ہمارے صحافی دوست ہیں جو ہمہ وقت مالی خسارے کا شکار رہتے ہیں مگر اوپر کی کمائی تو کجا، خود ار اتنے کہ کسی سے مالی تنگی کا تذکرہ تک نہیں کرتے ، صبح سویرے آپ کے ہاتھ میں جو اخبار ہو تا ہے ، اس کی تیاری اور آب یاری میں کس کس کی محنت شاقہ شامل ہوتی ہے ، یہ ایک طو لانی داستاں ہے ، عین اسی طر ح کا معاملہ زرق بر ق ٹی وی اسکرینوں کا ہے ، کیسے کیسے نفیس پروڈیوسر ، کیسے کیسے انسان دوست کیمرہ مین ، کیسے کیسے جی دار رپورٹر آپ کو ہر چھو ٹے بڑے خبری چینل میں ملیں گے ، اخبار اور ٹی وی چینل کے یہی وہ گمنام صحافی در اصل صحافت اور آپ کے ” ہیرو“ ہیں ، آزادی اظہار سے معاملہ ذاتیات تک پہنچا کیسے یہ بھی سن لیجئے ، حضرت مولانا عبدالستار نیازی ، حضرت عطااللہ شاہ بخاری اور ن جیسے بے شمار جید علما ء اکرام گزرے ، کیا ہستیاں تھیں جو مٹی کا رزق ہو ئیں ، ان علما ء اکرام کی ذات پر تنقید تو در کنار ، ان کے اسم گرامی سے چھیڑ چھا ڑ کی مجال کسی میں نہ تھی ، ان کے مخالفین کا شمار ان کے مریدین میں ہو تا تھا، کیو ں ؟ کیو نکہ ان علما ء اکرام کا اوڑھنا بچھو نا اسلام کی بے لو ث خدمت تھی ، حق گو ئی ان کی گھٹی میں شامل تھی ، جہاں کہیں حکمران ” بہک “ جا تے ، احتجاج تو دور کی بات ان کے ایک بیان سے وقت کے حکمران ناک کی سیدھ میں ہو جا یا کر تے ، معاملہ بگڑا کہاں سے ، جب ہمارے علماء اور سیاست داں ذاتی تشہیر کے اسیر ہو تے چلے گئے ، کیمرے اور مائیک کا نشہ لگنے کے بعد جنہو ں نے مصلحت کو شی کی راہ اپنا ئی ، بعد اس کے کیا ہوا ، وہی ہوا جو آپ دیکھ رہے ہیں نہ سیاست داں اور نہ ہی علماء اکرام کے گربیاں محفوظ رہے ، ہمارا المیہ کیا ہے ، یاد ہے ایک امر یکی نے پاکستانی قوم کے بارے میں کیا کہا تھا ، اس وقت ہمارا غصہ ساتویں آسماں کو چھو رہا تھا ، انکل سام کے خلاف ہم نے جی بھر کر بھڑا س نکالی ، کچھ دن بعد مگر ایسے ٹھنڈے پڑ گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا ، ایمل کانسی کس طر ح سے اغیار کے ہا تھوں میں گیا ، نہیں معلوم تو ذرا تحقیق کی خو اپنا لیجئے ، عافیہ نامی عفت دار خاتون کہاں ہے ، اس کی رہائی کے لیے ہم نے کتنا حصہ ڈالا ، مد عا کیا ہے ؟ بس یہ کہ جو بھی سانحہ یا واقعہ رونما ہوتا ہے ، چند دن ہم اس پر خوب رائے زنی کر تے ہیں اور پھر اسے بھو ل جا تے ہیں ، مہذب اقوام کا قرینہ یہ نہیں ہوا کر تا ، جب ایک مسئلے کے حل کے لیے قدم بڑھا دئیے پھر بطور قوم اس معاملے کا اس وقت تک پیچھا کیجئے جب تلک وہ ” پار “ نہ لگ جا ئے ، سب کچھ جا نتے بو جھتے مگر ایسا کر نے کے لیے ہم تیار نہیں ، وجہ اس کی بڑی سادی سی ہے ، ہم اپنے اپنے ” سچ “ کے اسیر ہیں ، ہم اپنے اپنے سچ کے ساتھ کھڑ ے ہیں ، ہم اپنی اپنی آزادی کے خو گر ہیں ، تلخ حقیقت کیا ہے ” میں “ہمیں کچھ کر نے نہیں دیتا ، ہم اپنے اپنے خانوں میں بٹے ہو ئے ہیں ، کہیں ”اپنی “سیاست کہیں ”اپنا“ مسلک ہمارے آڑے آجا تا ہے ، پو رے سچ کے ساتھ کھڑا ہو نے کا حوصلہ ہے نہ ساتھ دینے کا ارادہ ، ظاہر ہے منقسم قوم کی تقدیر میں پھر آئے روز ایسے المیے کاتب تقدیر لکھ دیا کر تا ہے ،آج مولانا طارق جمیل کے معاملے پر ہم چیں بہ چیں ہیں کل کلا ں کو ئی اور فتنہ سر پر ” ہما “ کی طر ح بیٹھ جا ئے گا ، ہما رے اس معا شرتی سر طان کا علاج بس ایک ہی ہے ، وہ یہ کہ من پسند حلقہ سیاست اور من پسند حلقہ نیابت سے بالا تر ہو کرہر اس شخص کے ساتھ کھڑا ہو نے کا عہد کیجئے جو سچ اور حق بات کے لیے لڑ ے ، ہو گا کیا ، پھر کو ئی نہ تو اسلا می عقائد پر حملہ آور ہو گا نہ کسی کے گریباں پر کو ئی ہا تھ ڈالے گا نہ آپ کے اقدار سے کو ئی چھیڑ خوانی کر ے گا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :