” سنا ہے بجٹ آنے والا ہے “

ہفتہ 16 مئی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

بھلے وقتوں میں جب حکومتوں کو رتی بھر عوام کا لحاظ ہوا کر تا تھا ان دنوں میں بجٹ سے قبل عوام میں گرانی اور ارزانی کے حوالے سے چہ مگو ئیاں ہو تیں ، عوامی چوکو ں چو باروں میں آمدہ بجٹ پر خوب گر ما گرم بحث ہوا کر تی تھی ، بجٹ کے دنو ں میں افاہوں کا بازار الگ سے گر م ہوتا ، باخبر احباب کبھی کبھار چسکے کے لیے ” خبر“ کو زیب داستاں کا تڑ کہ بھی لگا جاتے یو ں بجٹ سے ادھر کے پندرہ بیس دن میں عوام کی سطح پر خوب لے دے ہو تی ، عوام سے لگ کھا نے جن اشیاء کے نر خوں میں بڑ ھوتری کا امکاں ہو تا ان کو جواز بنا کر حکومت وقت کے مخالفین حکومت پر خوب اپنے دل کی بھڑا س نکالتے ، بجٹ کے دن تعلیم سے محروم مگر شعور کے ہنر سے لیس گھرا نوں میں پڑ ھی لکھی اولا دوں کو کان سے پکڑ کر سر کاری ریڈیوکے پاس حکماً بٹھا دیا جا تا ، بڑے بزرگ ریڈیوکے پاس بیٹھتے ، جیسے ہی بجٹ تقریرشروع ہوتی ادھر گویا سب کو سانپ سونگھ جا تا ، وزیر مو صوف بجٹ تقر یر فرماتے ، پڑ ھی لکھی اولاد تقریر غور سے سننے کا فریضہ سر انجام دیتی ، ہر چند منٹ بعد بزرگ سوال کر تے ہاں بھئی منتری جی نے کو ئی ” سکھ “ کی خبر سنا ئی ، چھوٹی پوت جواباً عر ض کرتی نہیں ابھی اربو ں کھر بوں کی بات ہو رہی ہے ، بے چین بزرگ ہر چند منٹ بے قراری سے اپنا یہی سوال دہراتے یوں بجٹ کی تقریر میں جب اشیاء خورد ونوش کی گرانی یا ارزانی کا فیصلہ وزیر باتدبیر کے منہ سے نکلتا ، پڑھی لکھی اولا دیں اپنی گھر بولی زباں میں اپنے بڑوں کو آگاہ کر دیتی ، ضیاء کے دور آمریت میں سال ہا سال کے بعد اسی کلو گرام آٹے کی بوری میں آٹھ روپے کا اضافہ ہوا ، پو رے ملک میں کہرام برپا ہوا ، عوام نے سر پکڑ لیے ، آٹا مہنگا ہو گیا ، اب کیا ہو گا ، کیسے گھر کا چولہا جلے گا ، ضیاء کے بعد خیر سے وطن عزیز میں جمہو ریت نے خوب پر پر زے نکالے بلکہ یو ں کہنا درست ہو گا کہ جمہو ریت خوب پھلی پھولی مگر جمہو ر کے زریں عہد میں اہل جمہور کا حال پتلا ہو تا چلا گیا ، جیسے جیسے جمہوریت وطن عزیز میں توانا ہو تی چلی گئی سالانہ بجٹ مذاق بنتا چلا گیا ، اب تو خیر سے ہر روز خود ساختہ بجٹ سے عام آدمی کا واسطہ پڑ تا ہے ہر دکان دار ہر ریڑھی بان کا اپنا اپنا بجٹ ہے اور اپنا اپنا منا فع ہے ، حکومت الگ سے عام آدمی کے ساتھ مذاق کر نے کا کو ئی مو قع ہا تھ سے جانے نہیں دیتی ، ہو ش ربا گرانی اوپر سے لا قانونیت کا راج عام آدمی کا جینا گویا محال ہو گیا ، آنے والا بجٹ کیسا ہو گا ، ایک دل نشیں تقریر حکومت وقت کے تعریفوں کے پل ، اعداد و شمار کا گھما ؤ پھرا ؤ اور الفاظ کا کورکھ دھندا ، امراء کے ٹیکس معاف ہو ں گے ، بڑھے مگر مچھوں کو چھوٹ مل جا ئے گی اور بس پیسہ ہضم کھیل ختم ، امارت کا لباس زیب تن کر نے والوں کو کیا معلوم کہ سرکار کے چھوٹے گریڈوں کے ملا زمین کس طر ح سے قلیل تنخواہو ں میں گزر کر رہے ہیں ،بوڑھے پنشنر قلیل پنشن میں کس کسمرپرسی سے اپنی زندگی کے آخری ایام گھسیٹ رہے ہیں ، نجی اداروں میں ” مشقت “ کر نے والے ساہوکاروں کے تجو ریوں کو اپنے خون پسینے سے بھر رہے ہیں مگر ان کی گزر اوقات کیسی ہو رہی ہے ، ان کو وقت پر تنخواہیں ملتی بھی ہیں کہ نہیں ، عر ض بس اتنی سی ہے، اس بجٹ میں کچھ نہ کیجئے بس اتنا کر م کر لیجئے کہ عوام سے لگ کھا نے والی اشیا ء ضروریہ کی قیمتیں کم کر دیجئے ، سرکار کے چھو ٹے ملا زمین کی تنخواہوں اور بو ڑھے پنشنرکے پنشن میں معقول اضافہ کر لیجئے ، نجی اداروں میں کام کر نے والوں کی کم از کم تنخواہ اتنی کر لیجئے کہ با آسانی وہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کو پالنے کا فریضہ سر انجام دے سکیں، بجٹ میں عوام کے بارے میں ” دوستانہ “ اقدامات کا اعلا ن کیجئے پھر قانون کا ڈنڈا لے کر اس پر عمل درآمد کی خو اپنا ئیے ، بے روز گار فوج پر روز گار کے در واکیجئے ، مخلوق خدا کے اہم تر مسائل گرانی اور بے روز گاری ہیں ، غربت اور بے روزگاری نے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی مت مار دی ہے ، خدا رامحض ایک دن کے لیے ہی سہی امارت اور عیش و ترب کی سیڑ ھی سے اتر کے سسکتی بلکتی ریاعا کی حالت زار خود ملا حظہ کر لیجئے ، غربت کا سانپ حسیں چہروں کو کیسے ڈستا ہے ، وقت سے پہلے غریب کے چہرے پر کیسے پڑ ھا پا طاری ہو تا ہے ، ذرا اپنی آنکھوں سے مفلوک الحال طبقوں کے روز و شب پر نگا ہ غلط ڈالنے کی زحمت کر لیجئے ، صابروں کا مزید امتحاں لینے سے اب تو ہاتھ کھینچ لیجئے ، بہت ہو گیا اب غربت کے ماروں اور اپنے ان جاں نثاروں کے در د کا ساماں کر لیجئے کہ انہی کے سر پر جمہو ریت کی فاختہ جمہو ریت کے گیت گا تی ہے انہی کے سر آپ کو اقتدار ملتا ہے انہی کے طفیل آپ کی گاڑی پر وزارت کا جھنڈا سجا کر تا ہے ، جن کے نعروں جن کے ووٹوں سے اقتدار ملتا ہے اب کے بار بجٹ میں ان کے مسائل کے حل کے لیے بھی کو ئی ٹھو س قدم اٹھا لیجئے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :