”کالا سونا“

پیر 15 جون 2020

Ahmed Khan

احمد خان

صراف بے چارے تو من چاہے منافع کما نے کے لیے ایسے ہی مشہور ہیں ایک دو رتی ادھر ادھر کر کے یا چند ماشے کے ” ہیر پھیر “ نے خواہ مخواہ ہی سو نے کے کاروبار کر نے والوں کو بد نام کر رکھا ہے ، معاشرے کا ہر طبقہ سمجھتا کہ ساری دولت تو بس سو نے کا کاروبار کر نے والے اپنی جیبوں میں ڈال رہے ہیں ، معا شرے کی اکثر یت سمجھتی ہے کہ سونے کے کاروبار سے وابستہ کاروبار ی حضرات کی پانچو ں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہے ، اگر کبھی کا لے سونے کا کاروبار کر نے والوں کے منافع کے بارے میں آپ معلوم ہو ا تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جا ئیں گے ، جتنا پیسہ کا لے سونے میں ہے اتنا منافع تو اصلی سونے کا کا روبار کر نے والو ں کی تین نسلیں بھی نہیں کما سکتیں ، ذرا وہ زمانہ یاد کر یں جب تیل مصنوعات کی قیمتوں میں دن دوگنی رات چو گنی اضافہ ہوا کر تا تھا،تیل مصنوعات کی قیمتوں میں کبھی ہر پندرہ دن بعد تو کبھی ما ہا نہ بنیادوں پر رد ووبدل ہو اکرتا، اس زمانے میں تیل کی قیمتیں اتنی بلند سطح پر چلی گئیں تھیں کہ عوام کے ہاتھوں کے باقاعدہ طو طے اڑ گئے تھے ، عوامی حلقوں میں تیل کی بلند قیمتوں پر خوب ہا ہا کار مچی تھی ، جہاں کہیں دو سر جوڑ تے ان کی گفتگو کا محور و مر کز تیل کی قیمتیں ہوا کر تی ، جب عوامی سطح پر تیل کی قیمتوں پر خوب لے دے ہو رہی تھی اس وقت تیل مصنوعات سے جڑے سرمایہ کار بڑے اطمینان سے منافع کما نے میں مگن تھے ، جس زمانے میں تیل مصنوعات کی قیمتوں کو پر لگے ہو ئے تھے ان دنوں میں ” سیانا کوا“ قبل از وقت تیل کے کاروبار سے جڑے بیوپاریوں کو کان میں بتا دیا کر تا تھا کہ آنے والے دنوں میں سر کار تیل مصنو عات کی قیمتوں کو اوپر کر نے والی ہے ، بس پھر کیا ہوتا ، تیل کے بیوپار کر نے والے ” سیا نے کوے “ کو دعا دیتے نہیں تھکتے تھے ، ادھر ” سیانے کو ے “ نے کا ن میں سر گوشی کی ادھر تیل مصنوعات کے بڑے فور اً سے پیشتر تیل ذخیرہ کر نے کے لیے ہاتھ پا ؤں ہلا دیتے یو ں سستے داموں تیل خرید کر ” مال خانے “ جمع کر لیا جاتا جیسے ہی حکومت وقت تیل کی قیمتوں میں بڑ ھوتری کا اعلان کر تی ، تیل کے ساہو کار سستے داموں خریدا گیا تیل مہنگے داموں فروخت کر نا شروع کر دیتے ، تیل مصنوعات کے بیو پار کر نے والوں نے اس طرح سے کتنے کما ئے ہو ں گے ، حساب کتاب میں آپ بہت تیز واقع ہو ئے ہیں سو آپ با آسانی اندازہ لگا سکتے ہیں ، دل دکھا دینے والا امر کیا ہے ، تیل کے کاروبار سے جڑ ے سر مایہ کار وں کا دل لمبا ہاتھ مارنے کے بعد بھی منا فع خور ی سے بھرا نہیں ، ملک کے طو ل و عرض میں بے شمار پٹرول پمپ ایسے ہیں جن کے بارے میں ماپ تول میں کمی کی شکا یات زبان زد عام ہیں ، بہت سے پٹرول پمپ کے بارے میں عوامی شکایات ہیں کہ وہ اپنے پیمانے دانستہ درست نہیں رکھتے ، بہت سے پٹرول پمپ تو ہاتھ کی ” صفائی “ دکھا نے کے حوالے سے خو ب ’ ’ خوش نام “ ہیں ، ایک اور واردات بھی ملا حظہ کر لیجیے ، سردیوں کی سرد راتوں میں کیا ہوتا ہے ، عام طور پر خود کو یخ بستہ ہوا سے بچا نے کے لیے گاڑیوں والے حضرات اپنی طر ف کا شیشہ سا ذرا سا نیچے کر کے پٹرول ڈالنے کا کہہ دیتے ہیں اور پھر ٹھنڈ سے بچنے کے لیے فوری طور پر شیشہ چڑھا دیتے ہیں ، گا ڑیوں والے کی اس ” اعتبار “ سے بھی خوب فائدہ اٹھا یا جاتا ہے ، پانچ سو کی جگہ تین سو کا تیل ڈال کر صارف کو ” ماموں “ بنا دیا جا تا ہے ، قصہ کوتا ہ اگر تیل کے کاروبار سے جڑے سرمایہ کار جائز منافع پر ہی اکتفا کر لیں ، اسلام کی رو ح کے عین مطابق تیل کی فروخت میں اپنا منافع رکھیں یقین کیجیے پھر بھی یہ صاحبان اور قدر دان روزانہ بنیادوں پر ہزاروں لاکھوں کا منافع آرام و سکو ن سے سمیٹ سکتے ہیں ، المیہ کیا ہے ، کا لے سونے میں جائز طور پر ہزا روں لاکھو ں کا منا فع کما نے کے باوجود بھی مگر کوئلوں کی دلا لی میں ہاتھ کا لے کیے جاتے ہیں ، یہی تیل کے بیو پاری جب تیل مہنگا ہوتا ہے تو تیل کی نایابی نہیں ہو نے دیتے مگر جیسے ہی تیل مصنوعات کی قیمتوں میں حکومت وقت نے خاطر خواہ کمی کی اب حالات پوری قوم کے سامنے ہیں ، ملک میں تیل کی کو ئی قلت نہیں ملکی ضررویات پو ری کر نے کے لیے تیل کی وافر مقدار مو جود ہے مگر پٹرول پمپ مالکان بڑھے دھڑلے سے تیل مصنوعات کو” سلیمانی ٹوپی“ پہنا ئے بیٹھے ہیں ، بس دعا کیجیے کہ کبھی قانون کی آنکھ مکا لے سونے کے معاملات پر بھی پڑے دیکھ لیجیے گا بہت سے قصے کھلیں گے بہت سوں کے چہروں سے نقاب سرکیں گے ، یہاں سے بھی اربوں کھر بوں کی ” ملی بھگت“ کے قصے سامنے آ ئیں گے، کس کس طرح سے ملک اور قوم کو چو نا لگا یا گیا، کس کا کس سے ” ملاپ “ تھا، بہت سے رازوں طشت ازبام ہوں گے، بس اس دن کا انتظار کیجیے شاید جلد یا بدیر وہ دن آہی جا ئے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :