”کھیل تماشا“

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

خیر سے پنجاب کے کوتوال پھر سے تبدیلی کی نذر ہو گئے ، تحریک انصاف کی پنجاب حکومت بڑے چا ؤ بڑے مان سے ہر آئی جی کا تقرر کر تی رہی مگر بس چند ماہ کے بعد ہی پنجاب حکومت کے ارباب اختیار اپنے ہی لگا ئے گئے آئی جی سے بد دل ہو کر اسے ” کو نے “ سے لگا دیتے ہیں ، لگے دو سالوں میں پنجاب حکومت نے سب سے زیادہ سر گر می بلکہ شہرت کما ئی وہ افسران کو ادھر سے ادھر کر نے میں کما ئی ، شعیب دستگیر لا تے وقت نہ صرف پنجاب کے ذمہ دار بلکہ وفاق کے کمان دار اعلی تک شعیب دستگیر کی شان میں قصید ے پڑ ھتے رہے مگر اسی شعیب دستگیر کو لگے دنوں عہدے سے ہٹا کر انعام غنی کو اس اہم ترین عہدے پر تعینات کر دیا گیا ، انعام غنی کا نام باخبر حلقوں میں نیک افسر کے طور پر گو نج رہا ہے مگر حکومتی امور پر کچھ زیادہ ہی عقا بی نگا ہ رکھنے والوں کی آراء انعام غنی کے بارے میں کچھ حوصلہ افزا ء نہیں ، انعام غنی بطور آئی جی پنجاب کیا کا ر ہا ئے نما یاں سر انجام دیتے ہیں ،پنجاب حکومت اور نئے نویلے آئی جی میں ” قر بت “ کا رشتہ کب تلک بر قرار رہتا ہے ، انعام غنی کون سا انقلاب بر پا کر تے ہیں، کچھ کہنا قبل از وقت بلکہ طو طا فال سے زیادہ کچھ نہیں ، اصل سوال مگر یہ بنتا ہے ، پنجاب پو لیس میں اصلا حات اور اس ادارے کو عوام دوست بنا نے کا جو وعدہ جناب عمران خان نے انتخابات کے بہار کے دنوں میں عوام سے کیا تھا دو سال سے زائد کا عرصہ ہوا چا ہتا ہے مگر پنجاب کی انصافین حکومت پو لیس میں کامل تبدیلی لا نے میں مکمل طور پر ناکام رہی ، پو لیس کو عوام دوست بنانے کے نام پر اصلا حات کا جو لو لی پاپ عوام کو دیا گیا تھا اس معاملے میں تحریک انصاف کے احباب ہنوز ناکام رہے ہیں ، کیا صرف آئی جی کی تبدیلی سے پنجاب پولیس کا نظام درست ہو سکتا ہے ، کیا نئے آئی جی کے آنے سے پو لیس کا عمومی رویہ تبدیل ہو سکتا ہے ، کیا نئے آئی جی کے تقرر سے پولیس کے طرز عمل میں درستی لا ئی جاسکتی ہے ، ظاہر سی بات ہے ایسا ممکن نہیں ، پولیس کو عوام دوست اور حقیقی معنوں میں ” مددگار “ فورس بنا نے کے لیے عملی اصلا حات پر دماغ سوزی کی ضرورت ہے ، پولیس کے نظام میں پا ئے جانے والی بد تری کو بہتری کے قلب میں ڈھا لنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے اور پھر اس قانون کو پولیس کے محکمہ میں عملا ً من و عن نافذ کر نا ہی انصافین حکومت کی کامرانی ہو گی ، لگے دو سالوں میں مگر تحریک انصاف نے پولیس کے نظام کو عوام دوست بنا نے کے لیے کچھ ایسا نہیں کیا جس کی گونج عوامی سطح پر سنا ئی دی گئی ہو یعنی اس معاملے میں ” خامو شی “ کو ہی دانائی سمجھا گیا ، عملا ً بات محض من چا ہے آئی جی کے تقرر و تبادلوں کے گر د گھو متی رہی ، من چاہے آئی جی کی تلا ش بسیار میں غالباً پانچ آئی جی صاحبان کو لا یا اور ہٹا گیا ، ، حضور صرف آئی جی کے ” چلت پھرت “ سے پو لیس کا فر سودہ نظام درست نہیں ہو سکتا ، لگے دو سالوں میں پو لیس عوام کے ساتھ کیا کر تی رہی ، سابقہ ادوار کی طر ح انصافین حکومت کے عہد زریں میں بھی پولیس کا چلن وہی ظالم کو سلا م اور مظلوم کو چھتر ما رنے والا رہا ہے جو پولیس کی جیب گر م کر ے اس کا کام منٹوں میں ہو جاتا ہے جبکہ مظلوم اور غریب شہری اسی طر ح پولیس کے ستم سہہ رہے ہیں ، پہلے بھی رشوت کا سلسلہ سر بازار تھا مو جودہ عہد میں بھی ” لین دین “ کے نر خ ختم ہو نے کے بجا ئے یک دم گئی گنا بڑ ھ گئے ، بے خوفی اور پو رے طمطراق سے جھوٹے پر چے درج کی رسم بھی رسم جفا کی طر ح عام ہے ، مظلوم کے ساتھ پو لیس کا بر تاؤ اب بھی ” سو تیلی ماں “ والا ہے ، سابقہ ادوار میں بھی پولیس شاہی بڑوں کے فون پر چلا کر تی تھی اب بھی بڑوں کے ” اشارہ آبرو “ پر کھیل تما شے کا سلسلہ روز مرہ کا معمول ہے گویا جو کھیل تماشے کم وپیش بہتر سالوں سے قوم دیکھ بلکہ بھگت رہی ہے پو لیس کا چلن عوام کے باب میں اب بھی وہی ہے ، کو چہ اقتدار کے مکینوں سے بس اتنی سی گزارش ہے ، پو لیس میں آئے روز افسران کو ادھر ادھر کر نے سے عملا ً کچھ بھی اچھا ہو نے والا نہیں اگر واقعی پولیس کا قبلہ درست کر نے کے لیے آپ کے دل میں تڑ پ اور سسک مو جزن ہے پھر پو لیس کے نظام کو صاف شفاف اور عوام دوست بنا نے کے لیے سب سے پہلے قانون سازی کے ڈگر پر چلنے کی سعی کیجیے ورنہ ” سب اچھا “ ہے کے چکر میں قوم کو الجھا کر آئے روز پو لیس افسران کو انتظامی دھکو ں سے پو لیس کے محکمہ میں بہتری آنے والی نہیں ،شاید تحریک انصاف کے کو چہ اقتدار کے مکینوں کے اچھا نہ لگے مگر سچ یہ ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :