کسی بھی مہذب معاشرے میں میں جرائم کی روک تھام اور بیخ کنی کے لیے پو لیس کا ادارہ قائم کیا جاتا ہے جرائم پیشہ عناصر کو نکیل ڈالنے کے لیے یہی پو لیس ہمہ وقت چوکس رہا کر تی ہے ، عام شہر یوں کو طاقت وروں کے ہاتھوں ” چورن “ بننے سے بچا نے میں بھی پولیس ” مائی باپ “ کا کردار ادا کرتی ہے داخلی سطح پر قانون کی سربلندی اور طاقت وروں کو قانون کے ذریعے ناک سے لکیریں نکالنے میں پو لیس ہی اپنا کما ل دکھا یا کر تی ہے ، وطن عزیز کی پولیس کا قصہ مگر اس کے بر عکس ہے پاکستان کی پولیس عوام کے لیے دہشت اور خوف کی علامت بن چکی، طاقت وروں کی جوتے سیدھی کر نے والی پولیس کے پاس جب لا چار شہری بہ امر مجبوری جا تے ہیں ان کے ساتھ شیر دل جوانوں کا رویہ انتہا ئی شرم ناک ہوا کر تا ہے رشوت کے بغیر کسی بھی تھانے میں کام ہوتا ہی نہیں ، مظلوم جو پہلے ہی حالات کا مارا ہو تا ہے پولیس الگ سے اس کے جیب پرڈاکہ ڈالتی ہے بسااوقات پو لیس جیب گر م کر نے کے باوجود مظلوم کی داد رسی سے ہاتھ ” کھینچ “ لیتی ہے ، تلخ سچ کیا ہے یہ کہ لاچار شہری اور خواتین کے لیے پولیس ایک عذاب ایک خوف ایک دہشت کا نام ہے سانحہ موٹر وے کی مظلوم خاتون ابھی تک پو لیس کے ہوائی دعووں پر ہر روز جی اور مر رہی ہے ، وسائل کی بھر مار اور مراعات یافتہ پو لیس تمام تر چابک دستی کے باوجود ہنوز موٹر وے کے مرکزی درندے کو گر فتار کر نے میں بر ی طر ح سے نامراد ہے ، ابھی اہل دل کے زخم مندمل نہیں ہو ئے کہ گوجرانوالہ کے نواح میں پولیس کے ایک کلنک کے ہاتھوں ایک لڑکی کی عفت تاتار ہو نے کا سانحہ رونما ہوا ، پولیس اہل کار کے ہاتھوں اپنی عفت گنوانے والی لڑ کی کی غم بھر ی داستاں سننے کے لیے پتھر کا دل چاہیے ، اسی سے ملتا جلتا سانحہ اوکاڑہ میں رونما ہوا ، تواتر سے خواتین کی عفت تاتار کر نے کے واقعات کیا پیام دے رہے ہیں ، کیا انسانوں کی شکل میں پاکستانی معاشرے میں بھیڑ یوں کا راج ہے ، کیا قانون اپنی وقعت کھو چکا ہے ، کیا پولیس جس کا بنیادی فرض عوام کی جان و مال کی حفاظت کر نا ہے وہی پولیس عوام کا خون چوسنے پر مامور کر دی گئی ، ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں جرائم کی شرح میں خوف ناک اضافہ کیوں ہو رہا ہے ، معاشرے میں انسانیت کی جگہ حیوانیت کی شر ح کیوں بڑھ رہی ہے ، اس لیے کہ انسان کو ” انسان “ کے دائر ے میں رکھنے والی پولیس خود انسان نما حیوانوں سے بھری پڑ ی ہے ، ایک مجبور اورلاچار لڑ کی اپنے ساتھ ہو نے والی ظلم کی داد رسی کے لیے تھانے کا رخ کر تی ہے ، تھانے کا محافظ اسی لڑ کی کی عزت پر دھبہ لگا دیتا ہے تکلیف دہ امر کیا ہے ، پولیس کی ہاتھوں کسی خاتون کی رسوائی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ، لاتعداد خواتین پولیس اہل کاروں کے ہاتھوں اپنی عزت گنوا چکی ہیں مگر پو لیس ہمیشہ اپنے پیٹی بند بھا ئیوں کو نشان عبرت بنا نے کے بجا ئے ہر دفعہ بچاتی رہی ہے ، پنجاب کے کو توال اعلی انعام غنی سے بس اتنی سی گزارش ہے عوام کی جان ومال کی حفاظت کا فریضہ بعد میں سر انجام دیں پہلے پو لیس میں موجود کالی بھیڑوں اور درندوں سے پولیس کو پاک کریں اگر پولیس کی ” صفائی “ میں کو ئی قانونی رکاوٹ حائل ہے ذاتی طور پر وقت کے حکمرانوں سے فر سودہ قانون کو بدلنے کے لیے ایک قدم اٹھا ئیے اگر حاکم طبقہ ساتھ نہیں دیتا پھر عدالت عظمی کے در پر دستک دے دیجیے مگر پولیس کو ” درندوں “ سے پاک کر نے کا فریضہ ہر صورت انجام دیجیے ، دوم جرائم پیشہ عناصر کی رگ پکڑ نے میں پولیس کی اسپیشل برانچ اور نمبردار نظام کلیدی کردار ادا کیا کرتے تھے نمبر دار دراصل اسپیشل برانچ کے سرکاری مخبر ہوا کر تے تھے بس ذرا سا کسی نے قانون کے دائر ے سے نکلنے کی ٹھانی ادھر نمبردار پولیس کے کانوں میں ” معاملہ “ پھونک دیاکر تے ،نمبر دار نظام بھی وقت کے ساتھ ساتھ زنگ آلود ہو تا چلا گیا اور پولیس کی اسپیشل برانچ بھی گزرتے وقت کے ساتھ ” عضو بے کار “ بنتی چلی گئی ، پولیس کے اسپیشل برانچ میں نکمے قسم کے پولیس اہل کاروں کا تقرر عام ہوتا چلا گیا سفارش کی لت نے بھی پولیس کے اس اہم ترین برانچ کو ناکارہ بنا نے میں اہم کردار ادا کیا، مکرم انعام غنی عوام کے محافظ اعلی ہیں اگر ان کی کمان داری میں عام شہری پو لیس کے ہاتھوں ذلیل اور رسوا ہو تے رہے ، یاد رکھیے روز محشر ان لاچاروں اور مظلوموں کے ہاتھ ہو ں گے اور آئی جی کا گریباں ہو گا اور یہ تو جناب انعام غنی خوب جانتے ہیں کہ روز محشر اپنے اعمال کے سوال کو ئی ان کے کام آنے والا نہیں ، انعام غنی اپنے ادارے میں موجود کا لی بھیڑوں پر ہاتھ ڈالیں جن کی وجہ سے پو ری پولیس بد نام ہو چکی ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔