”جو جیتا وہی چیتا“

منگل 15 دسمبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

پاکستان کی سیاست میں کیا مہر ے کسکنے کا عمل شروع ہو چاہتا ہے ، متحدہ حزب اختلاف کی اٹھا ن کتنی ہے اور کیسی ہے یہ سوال اپنی جگہ مسلم ، جس طر ح سے مگر متحدہ حزب اختلاف حکومت کے خلاف دبنگ طر زعمل اختیار کیے ہوئے ہے ، کو ئی مانے نہ مانے پاکستان کی سیاست میں باقاعدہ ایک ہلچل سی دکھا ئی دیتی ہے ، سیاست کے شاہ سوار اپنی جگہ اندازوں کے تیر چلا رہے ہیں اور سیاست سے شد بد رکھنے والے اپنی جگہ پیش گوئیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہو ئے ہیں ، وفاقی کابینہ میں رد و بدل کو بھی اسی تناظر میں ما پا اور تولا جارہا ہے ، جناب شیخ کو وزارت داخلہ کا قلم داں دینے کے معاملے کو باخبر حلقے خاص اہمیت دے رہے ہیں ، سابق ہو نے والے وزیر داخلہ کے بارے میں اغلب امکاں ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ متحدہ حزب اختلاف کے خلاف ترپ کے وہ پتے کھیلنے سے قاصر تھے جن کا تقاضا حالات کر رہے ہیں ، جناب شیخ کی صلا حیتوں کو احباب صرف گفتار کے ”خانے “ تک محدود سمجھتے ہیں بہت سے احباب جناب شیخ کو” فر مو دات “کا گرو قرار دیتے ہیں ، ایسا قطعاً نہیں ہے ، طویل عرصے سے حکومتی راہداریوں کے مکین شیخ رشید عوام اور سیاست کے اہم نباض کے طور پر بہت سے حلقوں میں جا نے مانے گردانے اور پہچانے جاتے ہیں ، متحدہ حزب اختلاف کے بارے میں جناب شیخ اور وزیر اعظم کم و پیش ایک طر ح کے خیالات رکھتے ہیں دونوں مہر باں حزب اخِتلاف کو پتلی گلی سے راستہ دینے کے بظاہر قائل نہیں ، یکساں خیالات کے مالک وزیر اعظم اور وزیر داخلہ شاید صائب طریقے سے داخلی معاملات کو چلا سکیں ، کو رونا کے وبا کے عین شباب کے دنوں میں متحدہ حزب اختلاف کے ” گرم مزاج “ سے نمٹنا حکومت کے لیے انتہا ئی اہم ہے ، حکومت کے پاؤں اس نازک تر مو قع پر اگر ذرا سے پھسلتے ہیں پھر حکومت کے پاس سنبھلنے کا موقع نہیں ہو گا ، عوامی سطح پر حکومت پہلے ہی تنقید کی زد میں ہے بہت سے عوامی معاملات اور مسائل ایسے ہیں جو حکومت کے چاہنے کے باوجود حل نہیں ہو رہے ، اس منظر نامے میں شیخ رشید کو اہم ترین قلم داں دینے کا مقصد یہی ہے کہ ایک طر ف جناب شیخ متحدہ حزب اختلاف کے ” حملوں “ سے حکومت کو بچانے کی حسن تد بیر کر یں ، دوسرا مقصد داخلی طور پر افسر شاہی کے گر جاننے والے جناب شیخ عوام سے لگ کھا نے والے معاملا ت کو حل کر نے پر افسر شاہی کو ” قائل “ کر یں ، اہم نکتہ مگر کیا ہے ، جناب شیخ بطور وزیرداخلہ کس حد تک متحدہ حزب اختلاف کا ” علا ج “ کر نے میں کامران ہو تے ہیں ، داخلی معاملات اور صورت حال کو شیخ رشید کس حد تک عوامی امنگوں کے مطابق چلا تے ہیں ، ہر گز رتے دن کے ساتھ جناب شیخ کے احکامات اور اقدامات سے بہت کچھ واضح ہو تا چلا جا ئے گا ، اس سارے قصے کا لب لباب کیا ہے ، حکومت اور متحدہ حزب اختلاف دونوں جو جیتا وہی چیتا والی نہج پر اریب قریب پہنچ چکے ہیں ، سیاسی ماحول کو ساتویں آسماں پر پہنچادینے کے بعد اگرمتحدہ حزب اختلاف پسپائی اختیار کر تی ہے عیاں سی بات ہے کو رونا کے وبا اور یخ بستہ سر دی میں کا رکنوں کو امتحاں میں ڈالنے والی متحدہ حزب اختلاف کے پلے اس صورت ککھ نہیں رہے گاگو یا جگ ہنسائی عوامی چو کو ں چو باروں میں متحدہ حزب اختلاف کا وہ پر تپاک ” استقبال “ کر ے گی جس کی تو قع شاید ان احباب کے وہم وگماں میں بھی نہ ہو ، کچھ اس سے ملا جلا قصہ حکومت کا بھی ہے ، جناب خان اور تحریک انصاف سے جڑے دوسرے اکابرین جن بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں کی گھٹڑی سروں پر رکھ کر اقتدار میں آئے تھے اگر جناب خان اور ان کی حکومت متحدہ حزب اختلاف کے ہاتھوں ہار کا مزہ چکھتی ہے ، جناب خان کے چاہنے والے شاید متحدہ حزب اختلاف کے ہاتھوں حکومت کی رسوائی برداشت نہ کر پا ئیں ، سیاسی کشاکش کی اس صورت حال میں حکومت اور متحدہ حزب اختلاف میں مقابلے کی سی فضا ہے ، حکومت اپنی بچا ؤ کے لیے تن من دھن وارنے کو تیاری بیٹھی ہے دوسری جانب متحدہ حزب اختلاف اقتدار کے سنگھا سن میں قدم رکھنے کے لیے ہر وہ حربہ ہر وہ حیلہ ہر وہ کوشش کر نے کے لیے تیار دکھا ئی دیتی ہے جس سے کامرانی کی امید ہے ، بڑوں کی اس لڑائی میں نقصان کس کا ہو رہا ہے ، جی ہاں عام آدمی اس لڑائی میں مزید بر باد ہو رہا ہے ، حکومت کی تمام تر توجہ متحدہ حزب اختلاف کی چالوں کو ناکام بنا نے پر مر کوز ہے ، حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں حکومت کی پالیسیوں پر کڑی نظر رکھنے کے بجا ئے حکومت کے چل چلا ؤ کے لیے سر گرم ہیں جہاں تلک عوام کی بات ہے عوام کی اکثریت اس سارے کھیل تماشے کو دیکھ رہی ہے مگر عملاً اپنی فلاح کے لیے کچھ کر نہیں کر سکتی ،لگے کئی ما ہ وسال سے کیا ہو رہا ہے ، سیاسی جماعتیں اور سیاست داں اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے خلاف تحریکیں چلا تے رہے ہیں عوام کے حقوق کے لیے مگر وطن عزیز کے ان سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں نے کبھی ایسی کو ئی تحریک نہیں چلا ئی جس سے عوام کو ان کے بنیادی حقوق مل جا تے ، کاش کو ئی سیاسی جماعت صرف عوام کے حقوق کے لیے بھی سر و ں پر کفن باندھ کر نکلے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :