”بند گلی“

جمعہ 18 دسمبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

پانامہ کا قضیہ عیاں ہونے کے بعداگر نواز شر یف مخلص دوستوں کے راست مشورے پر من وعن عمل کر تے ہو ئے وزارت عظمی سے مستعفی ہو کر نئے انتخابات میں چلے جا تے ، نوازشر یف کے اس اقدام سے کیا ہو تا ، پانامہ کا مقد مہ نہ عدالت عظمی میں جاتا نہ نواز شریف نااہل ہو تے نہ نوازشریف آج اس حال سے دوچار ہوتے نہ مسلم لیگ ن سیاسی طور پر اتنے مشکلات کا شکار ہوتی گویا سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی سلامت رہتی ، وزارت عظمی پر براجمان نوازشریف نے مگر سیاسی لڑائی لڑنے کو ترجیح دی ،مسلم لیگ ن کے خیر خواہ اور مخلص دوستوں کو دیوار میں چن دیا گیا اور بلے بھئی بلے طرز کے سیاست داں نواز شر یف کے ارد گرد ہوگئے ، اقتدار کانشہ اوپر سے آگے بڑھیں نواز شریف جیسے مشورے دینے والوں نے مسلم لیگ ن اور نوازشریف کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا جس دلدل سے مسلم لیگ ن اور نواز شریف دونوں ہنوز نکلنے میں کامران نہ ہوسکے ، نواز شریف کی ہٹ دھرمی کہہ لیجیے یا حد سے بڑھی خود اعتمادی ، بہر حال جو بھی سمجھیں نواز شریف کی اس سیاسی خود سری کے جو نتائج نکلے نوازشریف اور مسلم لیگ ن ان نتائج کے مضمرات آج بھگت رہی ہے ، ماضی سے دامن چھڑاتے ہو ئے حال میں آجا ئیے متحدہ حزب اختلاف اور حکومت کے سر خیل جناب خان کے درمیاں کم وپیش ” حالات “ اسی مقام پر پہنچ چکے اگر کو ئی کسر رہتی ہے ، حکومت اور متحدہ حزب اختلاف جس طر ح سے ایک دوسرے کے سامنے تن کر کھڑ ے ہیں آج نہیں تو کل دونوں سیاسی حریف ” تو کون میں خواہ مخواہ “ کے مقام پر ہو ں گے ، متحدہ حزب اختلاف کی چال کس کی غمازی کر رہی ہے ،حکومت کے اعلی دماغوں کی اکڑفوں کا بھی جواب نہیں ، چند سال کے قبل کے سیاسی مناظر گویا آنکھو ں کے سامنے دوبارہ سے چل پڑے ہیں ، کل تلک جناب خان مسلم لیگ ن حکومت پر تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے جواباً نواز شریف کے دستر خوان کے دوست تحریک انصاف کو تر کی بہ تر کی جوا ب دیتے رہے ، دونوں سیاسی حریفوں کے درمیاں ” تو تو میں میں “ سے تلخی میں تیزی سے اضافہ ہو تا چلا گیا اس تلخی نے با قاعدہ سیاسی لڑائی کی شکل اختیار کی ، اناؤں کی اس جنگ کے جو نتائج نکلے اب وہ تاریخ ہے ، حکومت کا کردار ہمیشہ سے مشفقانہ ہو ا کرتا ہے ، حزب اختلاف کی زباں درازی پر بھلے مانس حکومت کم ہی کان دھرا کرتی ہے ، حکومت کی جانب سے دھیما پن دکھلا نے کی حکمت سے حزب اختلاف کو تر پ کا پتا کھیلنے کا مو قع باوجود ہزار کو شش کے نہیں ملا کر تا ،اچھے بھلے حالات دراصل حکومت کے وقت سے تب کسک جا تے ہیں جب حکومت حزب اختلاف کی ” سطح “ پر آجاتی ہے ، نواز شریف نے جو غلطی کی کیا جناب خان بھی وہی غلطی کر نے والے ہیں ، قوی آثار کچھ ایسے ہی نظر آرہے ہیں ، جناب خان اور جناب خان کے خواص حزب اختلاف کو ” حکمت “ سے کنارے لگا نے کے بجا ئے ایسے بیانات داغ رہے ہیں جس سے حکومت اور متحدہ حزب اختلاف میں نہ صرف یہ کہ سیاسی خلیج تیزی سے بڑھ رہی ہے بلکہ دونوں فریقین میں ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملات ” بند گلی “ کی طرف جا رہے ہیں ، جس طر ح کے طرز عمل پر متحدہ حزب اختلاف عمل پیرا ہے جس طر ح کے احتجاج کا اعلان متحدہ حزب اختلاف کر رہی ہے اگر متحدہ حزب اختلاف اپنے اعلانات کو عملی جامہ پہناتی ہے کیا اس صورت جناب خان حکومت چلانے میں کامران ہوسکتے ہیں ، کیا سیاسی لڑائی مار کٹائی سے وطن عزیز میں پا ؤ ں پاؤں چلتی جمہو ریت کو خطرات لا حق نہیں ہو ں گے ، جمہوری ایوانوں سے رخصتی کے بعد کیا متحدہ حزب اختلاف جناب خان کو چین سے چلنے دے گی ، یاد رکھیے متحدہ حزب اختلاف کے سخت طرز کے فیصلوں پر عمل کر نے کے بعد جناب خان کے لیے حکومت کر نا قطعاً آساں نہیں ہو گا ، اس صورت ہو گا کیا ، وطن عزیز میں سیاسی ہڑ بونگ کا راج ہوگا ، سیاسی افراتفری سے انتظامی عمل عملا ً اپاہج ہو جائے گا، بڑھتے سیاسی تنا ؤ کا حل کیا ہے ، دونوں سیاسی حریفوں میں موجود دانا اورمخلص دوستوں کو آگے آنا چا ہیے اور معاملات کو ٹھنڈ ے دل سے حل کر نے کی سعی کر نی چا ہیے ، سیاست میں مذاکرات اور افہام و تفہیم ہی اہم ہتھیار ہو اکرتے ہیں سو حکومت اور حزب اختلاف کو عوام کی حالت زار پر رحم کر تے ہو ئے ذاتی رنجشوں کو بھلا کر عوام کے بھلے کے لیے سر جوڑ لینے چا ہییں ، عوام کا جینا پہلے ہی محال ہے خواہ مخواہ کی سیاسی افراتفری سے عوام کا حال مزید خستہ ہوگا ،ملک و ملت کی بھلائی اسی میں ہے کہ سیاست کے شہسوار معاملات کو صائب طریقے سے حل کر یں بند گلی میں جا نے سے معاملات سلجھنے کے بجا ئے مزید الجھتے چلے جا ئیں گے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :