”نہ مد عی نہ شہادت حساب پاک ہوا“

جمعرات 14 جنوری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

دہشت گر دی کے ہر واقعہ کا انجام یہی ہو ا کرتا ہے نازک وقت میں عوام بھی جذبات کی رو میں بہہ جا تے ہیں تخت پر براجمان بھی ” گا گی گے “ کی گردان کر کے اپنی راہ پر ہو جا تے ہیں ، دہشت گر دی کی بھینٹ چڑھنے والوں کی قبروں کی مٹی ادھر سوکھ جاتی ہے ادھر حکومت اور عوام دونوں اس واقعہ بھول جا تے ہیں حالیہ دنوں میں سانحہ مچھ پر خوب لے دے ہو ئی ، بس چند گزرنے دیجیے سب اس سانحہ کو یوں بھول جا ئیں گے جیسے کسی کا ناحق خون بہا ہی نہیں تھا ، حکومتوں کی سطح پر پالیسیوں کو روا رکھنے میں عدم استحکام کی عادت بد کہہ لیجیے جس کی وجہ سے جواں خواہش کے باوجود ابھی تک دہشت گر دی کے ناسور سے وطن عزیز پاک نہ ہو سکا ، دہشت گر دی کے زیادہ تر واقعات کے تانے بانے افغان سر زمین سے جو ڑتے ہیں ، افغانستا ن اور افغانی باشندے کسی نہ کسی طور پاکستان میں دہشت گر د کا رروائیوں میں ” سہولت کار “ کا کردار ادا کر تے ہیں ، اس اہم تر نکتے کو پاک فوج کے کمان دار اعلی راحیل شریف اچھی طر ح جان چکے تھے اپنی سپہ سالا ری کے عہد میں راحیل شریف نے نہ صرف یہ کہ افغانستان کو ” نتھ “ ڈالنے کی مخلصانہ سعی کی بلکہ پاکستان میں مو جود چلتے پھر تے لا کھوں افغانی ” سہولت کاروں “ کی ملک بد ری کے لیے بھی کمر بستہ رہے جیسے ہی راحیل شریف کمان دار اعلی کے عہدے سے سبک دوش ہو ئے حسب سابق راحیل شریف کی ملکی مفاد کے حامل اس منصوبے کو بھی حکومت اور پاک فوج کے نئے کمان دار اعلی نے پس پشت ڈال دیا ، لگی تین دہا ئیوں کی تاریخ کا مطالعہ غیر جانب دار عینک لگا کر کر لیجیے ہر افغان حکومت نے پاکستان کے مفادات کو زک پہنچانے کا کو ئی مو قع ہاتھ سے جانے نہ دیا عین اسی طرح پاکستان میں مو جود افغانی بھی ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار بننے میں پیش پیش رہے ، افغانیوں کی وطن عزیز میں بلا روک ٹوک چلن سے ملکی سلا متی کو کتنے خطرات لا حق ہیں کا ش محب وطن حلقے ان خطرات کو بھا نپ لینے کی زحمت کر سکیں ، خیبر پختون خوا ہ اور بلو چستان سب سے زیادہ دہشت گر دی کا شکار رہے ہیں بلکہ اب بھی گا ہے گاہے ان دونوں صوبوں میں دہشت گر دی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، محب وطن حلقوں میں کیا سوال ابھر تا ہے ، بلو چستان اور خیبر پختون خواہ دہشت گردوں کے لیے آسان نشانہ کیوں ہیں ،اولاً ان دونوں صوبوں کی سر حدیں افغانستان سے جڑی ہیں ثانیاً ان دونو ں صوبوں میں افغانیوں کا آنا جا نا ایسا ہی ہے جیسے روالپنڈی کے باسیوں کے لیے اسلا م آباد عازم سفر ہو نا ، پاکستان میں مو جود افغان باشندے ان دہشت گر د وں کے لیے باآسانی ” سہولت کاری “ کا فریضہ سر انجام دے دیتے ہیں ، ہو تا کیا ہے ، دہشت گرد واقعہ کے بعد ہر بار حکومت کے اعلی دماغ اور حکومتی ادارے لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں مگر آستین کے سانپ ” سلیمانی ٹوپ“ پہن کر منظر سے ادھر ادھر ہو جا تے ہیں ، پتے والی بات کیا ہے ، حکومتوں کے ہلے گلے سے دہشت گر دی کو نکیل ڈالنی قطعاً ناممکن ہے ، دہشت گردی سے ملک اور قوم کو مامون کر نے کے لیے ضروری ہے کہ اس قضیے کے باب میں ٹھوس اقدامات کا چلن عام کیا جائے ، افغان سر حد پر باڑ لگ گئی بہت اچھا ہو الیکن دہشت گردوں کو روکنے کے لیے صرف باڑ لگا نی کا فی نہیں اگر وطن عزیز کو دہشت گر دی سے کا مل طور پر پاک کر نا ہے پھر سب سے پہلے پاکستان میں مو جود لا کھوں افغانیوں کو ڈنڈے کے بل پر افغانستان دھکیل دیجیے ، جب تک پاکستان میں ایک بھی افغانی مو جود رہے گا اس وقت تک پاکستان میں دہشت گرد کا ررائیوں کا امکاں باقی رہے گا ، دہشت گر دی کا قلع قمع کیسے ہو ، ایک طر ف افغانستان کی ہما رے حکمراں چھبیاں ڈالتے ہیں ان کے لیے ہمہ وقت اپنے بازو وا کیے رکھتے ہیں ، ان کی سازشوں سے دیدہ و دانستہ آنکھیں بند رکھنے کی پا لیسی پر گامزن ہیں دوسری جانب حکمران اور عوام دہشت گردی کے خاتمہ کے بھی متمنی ہیں ، خدارادونوں سیڑ ھیوں پر پا ؤں رکھنے سے ناکامی مقدر بنا کر تی ہے ، ملکی مفاد اور ملکی سلامتی کو مقدم جا نیے، اپنے عوام کی جان و مال کو ہر مفاد پر تر جیح دینے کی خو بو اپنا ئیے ، اغیار کی محبت میں کب تک اپنوں کی قر بانیاں دیتے رہیں گے ، دہشت گر دی سے جاں خلاصی اسی صورت ممکن ہے جب پاکستان میں مو جود افغانیوں کو جلد از جلد بے دخل کر نے پالیسی کا نفاذ ہو ، افغانستان سے تعلق کو ملکی سلامتی کے ترازو میں تولنے کی پالیسی پر عمل کیا جا ئے ، لاکھ صرف نظر کیجیے مگر وطن عزیز کی سلامتی کا راز اسی پالیسی کے نفاذ میں مضمر ہے با قی آپ جا نے اور آپ کا کام جا نے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :