”بس! یہی زندگی ہے“

اتوار 21 فروری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

ایوان بالا کے دبنگ رکن مشاہد اللہ خان بھی اپنا ساماں باندھ کر راہی عدم ہو گئے ، مر حوم کا شمار چند ان گنے چنے سیاست دانوں میں ہو تا تھا جنہیں ڈھنگ سے اپنی مد عا بیاں کر نے کے وصف سے قدرت نے نواز رکھا تھا ، اردو زبان پر عبور پھر الفاظ کا کمال چنا ؤ ، بات کر تے تو ساماں باندھ دیتے ، اردو ادب اور ادب کی مشہور صنف شا عری سے خصوصی لگا ؤ کی وجہ سے اپنے تقاریر میں گا ہے گاہے خوب صورت شعر بھی موتیوں کی مانند پروتے جس مو ضوع پر لب کشائی کرتے بے تکا ن کرتے مگر طویل تقریر میں بھی عامیانہ پن کی جھلک نظر نہ آتی ، اردو ادب اور صحافت کی خاک چھا ننے والوں کے لیے ان کی شعلہ بیانی میں بہت کچھ ہوتا، ایوان بالا میں حکمراں جماعت کے خلاف ہمہ وقت لفظی گولہ باری کے لیے تیار رہتے ، اپنی شعلہ بیانی سے اپنے ” ہم خیالوں “ کی واہ واہ کی صورت خوب داد سمیٹتے ، سیاسی مخالفین ان کی ” لفظی تڑکوں “ پر سیخ پا ہوتے ، ایوان بالا میں مشاہد اللہ خان زباں کھو لے اور ایوان بالا میں ہنگام بر پا نہ ہو گویا ایوان بالا میں مشاہد اللہ اور ہنگامہ خیزی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ، مر حوم کی زبان پر کامل عبور اپنی جگہ مسلم مگر سیاسی مخالفین کے بارے میں بسا اوقات جذبات میں وہاں تلک چلے جاتے جہاں تک جا نا ان جیسے ادب شناس کے ساتھ جچتا نہیں تھا ، لگے کچھ سالوں میں جس رخ پر سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت نے ملکی سیاست کو ڈالاہے ملکی سیاست میں ان ” نئی روایات “ کے دخیل ہو نے سے سیاست کے بہت سے طالب علموں کو سیاست سے الجھن محسوس ہونے لگی ہے ، نعیم الحق کا نام بھی شاید بہت سے قارئین کے ذہنوں سے ابھی تک محو نہیں ہوا ہو گا ، تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے نعیم الحق ہر وقت لڑ نے مر نے پر آمادہ رہتے ، تحریک انصاف اورعمران خان کے مخالفین کے خلاف نعیم الحق ہر ” دریا“ عبور کر نے میں کو ئی جھجک محسوس نہیں کر تے تھے ، تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے نعیم الحق مر حوم نے بہت سی دشمنیاں پالیں ، اپنے مخالفین کی فہر ست خوب طویل کی مگر جب دم رخصت آیا تو آنا ً فاناً سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے ، مشاہد اللہ مر حوم کا تعلق بھی مسلم لیگ ن سے ” عاشق صاد ق “ والاتھا ، مسلم لیگ ن کی قیادت کی مد ح سرائی میں مشاہد اللہ مر حوم کا کو ئی ثانی نہ تھا مگر دیکھ لیجیے وہی مشاہد اللہ اپنا ” بار “ خود اٹھا کر رب کریم کے حضور پیش ہو گئے ، سیاست ضرور بہ ضرور کیجیے ، سیاست کے پلیٹ فارم سے ” غبار خاطر “ کا ساماں کیجیے ، جس نظر یہ کے علم بردار ہیں ان نظریے کے فروغ کے لیے جان لڑا دیجیے ، جس سیاسی جماعت سے وابستگی ہے صدق دل سے ان جماعت کو ما تھے کا جھو مر بنا ئیے ، سیاست کے کھیل میں مگر اس حد تک نہ جا ئیے جہاں سے ذاتی عدواتیں آپ کا مقدر بن جا ئیں ، سیاست میں اپنے اور اپنے سیاسی مخالفین کے درمیاں دوری کا خط کھینچنے سے پر ہیز کیجئے، یہ زندگی تو بس چند روزہ بہارہے اس عارضی زندگی میں جتنا ہو سکے دوسروں کے دلوں پر حکمرانی کے لیے کو شاں رہیے دوسروں کے بھلے کے لیے ہر گام سرگر م رہیے ، دوسروں کے دلوں کو جیتنے کی جستجو کو اپنی زندگی کالا زمی جز بنائیے ، سیاست ضرور کیجیے ، چاہیے جس سیاسی جما عت کا سر خیل رہیے چاہے جس سیاسی جماعت کی قیادت کے ہاتھ بیعت کیجئے ، بس اتنا کیجیے کہ سیاست کو سیاست سمجھیے سیاست کو عدوات نہ بنا ئیے ، یاد رکھیے سفر آ خرت میں کسی نے آپ کے ہم قدم نہیں ہو نا کسی سیاسی حلیف نے آپ کی جگہ جواب نہ دینا ، آپ کی سیاسی قیادت نے رب کریم کے حضور آپ کی جاں خلاصی کا ساماں نہیں کر نا ، آخر ت کا کھٹن سفر آپ نے اکیلے سر طے کر نا ہے بس اسی سفر آخرت کو مد نظر رکھ کر سیاست کیجیے اور سیاست میں اپنے ” گر “ آزما ئیے بہت سے نامی گرامی سیاست دانوں کی طرح سیاست کا ایک فعال ستارہ بصورت مشاہد اللہ خان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ، سیاست کے میداں میں سرگرم جن احباب کے پاس ابھی سانس کی مہلت باقی ہے انکی خدمت اقدس میں عر ض کہ سیاست میں مثبت روایات کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کیجیے ، سیاست میں اخلاقیات قوت برداشت شستہ پن اور دلیل کے اوصاف کو عام کر نے کے لیے جو ہوسکے کر لیجیے ، سیاست اس طرح کیجیے کہ یہی سیاست آپ کے جانے کے بعد آپ کے لیے صد قہ جاریہ بن جا ئے ، دم رخصت آپ کے حلیف بھی آپ کو آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر یں اور مخالفین کے ہاتھ بھی آپ کی بخشش کے لیے بے اختیار اٹھیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :