” خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں “

جمعرات 4 مارچ 2021

Ahmed Khan

احمد خان

ایک اچھے بھلے بلکہ ” فٹ فٹور “ کا روباری شخصیت کو اپنی کاروباری ” امور“ میں گاہے گاہے روکاٹوں کا سامنا کر نا پڑ تا تھا مو صوف خالصتاً دو جمع دو چار بلکہ دو جمع دو ”آٹھ“ کے خو گر تھے ، کاروبار کے اتار چڑ ھاؤ کے ” جھنجٹ“ اپنے یارخاص کے سامنے رکھے یارخاص کھلکھلا کر بولے اپنے کاروباری امور کے لیے ’ ’ چھتری “ بن جائیں کاروبار میں حائل رکا وٹیں ٹا ئیں فش ہو جا ئیں گی بلکہ کاروبار بھی دن دگنی رات چوگنی تر قی کر ے گا ، دھا نسو قسم کے کاروباری شخصیت نے حیرانی سے اپنے یار خاص سے پوچھا بھلا وہ کیسے ، یارخا ص نے انہیں سیاست داں بننے کے ایک سو ایک فائد ے بتلا ئے سیاست سے بھی لطف لیں اور کاروبار کی راہ میں کوئی سرپھرا رکاوٹ بھی نہیں بنے گا ، بھلے وقتوں میں جب ایم این اے کا امید وار چند لا کھوں میں اپنی انتخابی مہم کو پار لگا دیا کر تا تھا اس دور میں اس کاروباری شخصیت نے ایک بڑی سیاسی جماعت کو ” خاصا“ پارٹی فنڈ دے کر ایوان بالا کی نشست اپنے نام کردی ، مقصود کیا ہے یہ کہ ایوان بالا کے چنا ؤ میں پیسے کی ریل پیل عہد حاضر کا المیہ نہیں بلکہ ایوان بالا میں پارٹی فنڈ کے نام پر پیسے کا چلن کئی دہا ئیوں سے عام ہے ایوان بالا تو ” خواہ مخواہ “ زیر بحث ہے ، قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھی پیسے کا چلن عام سی بات ہے ، تگڑی سیاسی جماعتیں ان امید واروں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ سے نوازا کر تی ہیں جو نہ صرف یہ کہ انتخابی مہم میں لا کھوں کروڑوں جھو نک سکیں بلکہ سیاسی قیادت کو بھی مشکل وقت میں مالی کندھا دے سکیں ، سیاسی جماعتوں میں جب سے پیسے کاکھیلن عام ہو ا اس کے بعد سیاسی جما عتوں کے نظریاتی کارکن سچ پو چھیے تو ” رل “ گئے وہ نظر یاتی کارکن جو اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے چلتے پھر تے اشتہار ہیں جو اپنی سیاسی جماعتوں کے لیے دشمنیاں تک پال لیتے ہیں وہ نظریاتی کارکن جو کسی بھی سیاسی جماعت کی بقا میں کلیدی کردار ادا رکر تے ہیں ، جب پارٹی عہدوں کی نامزدگیوں اور ٹکٹوں کی بند ر بانٹ کا مر حلہ آتا ہے سیاسی جماعتیں اپنے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر کے ان چھاتہ برداروں کو ماتھے کا جھو مر بنا لیتی ہیں ، سیاسی جماعتوں کی اس روش کے نتائج کیا نکلے ، نظریاتی کارکن ما یوس ہوکر سیاست سے کنارہ کش ہو تے چلے گئے ، دوسری جانب سیاسی جماعتوں میں پیسے کے بل پر دخیل ہونے والے سیاسی قیادت کے ناک کے بال بنتے چلے گئے ، سیاسی جماعتوں میں ان چھا تہ برداروں کو مصاحبین خاص کا درجہ مل چکا ہر سیاسی جماعت اپنے انہی ” کرم فر ما ؤں “ کے کہے کو حرف آخر سمجھتی ہے اگر چہ سیاسی جماعتیں مال داروں سے یاری لگا نے کے بعد خوب مال دار ہو گئیں مگر عوام میں ان سیا سی جماعتوں کی قدرو منزلت میں تیزی سے کمی آتی چلی گئی ، ایک وقت تھا جب پاکستانی سیاست میں سیاسی جماعتوں کا طو طی بولا کرتاتھاان سیاسی جماعتوں کی ایک صدا پر ملک کے طول و عرض میں عوام اپنے گھروں سے نکل آتے تھے ،اپنی اس” چال چلن“ کی وجہ سے اب یہ سیا سی جماعتیں خاص علا قوں تک سکڑ گئیں ، پی پی پی جیسی ملک گیر جماعت کا حشر قوم کے سامنے ہے چاروں صوبوں کی زنجیر کہلا نے والی پی پی پی کا وجود عملا ً سندھ تک رہ گیا ، مسلم لیگ ن لگے کئی بر سوں تک پنجاب کے پی کے اور کسی حد تک بلو چستان میں وجود رکھتی تھی یہی جماعت سندھ میں بھی کسی حد تک اپنی مو جودگی دکھایا کر تی تھی اب مگر مسلم لیگ ن کے کیا حالات ہیں ، سیاسی جماعتوں کا جتنا زیاں پیسے کے وصف سے لیس چھا تہ برداروں نے کیا اتنا نقصان ان سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی مخالفین نے نہیں دیا ، اس میں کو ئی دو آراء نہیں کہ سیاسی جماعتوں کو چلا نے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے پیسے کما نے کو لا زمی جز بنا دیا ہے ، حضور پارٹی چلانے کے لیے ضرور بہ ضرور پیسہ اکھٹا کیجیے مگر اپنے نظریاتی اور مخلص کا رکنوں کو بھی فرامو ش نہ کیجیے ، ووٹ چھا تہ برداروں نے نہیں دینے ، قربانیاں چھا تہ برداروں نے نہیں دینی ، لا ٹھیاں نظریاتی کا رکن کھا تے ہیں ، جیلوں کی سیر نظریاتی کا رکن کر تے ہیں ، جس دن آپ کے عروج کے سورج نے ” مغرب“ کا سفر شروع کیا دیکھ لیجیے گا یہ چھا تہ بردار آپ کو چھوڑنے میں ایک پل کی دیر نہیں کر یں گے ، چند سالوں میں تحریک انصاف نے کارکنوں کی شان میں خوب واویلا کیا نتیجتاً کارکنوں نے تحریک انصاف کو مقبول بنا نے میں دل و جاں سے اپنا کردار ادا کیا ، اقتدار میں آنے کے بعد مگر تحریک انصاف کی اعلی قیادت بھی اپنے کارکنوں کو بھول بھال کر چھاتہ برداروں کے شکنجے میں پھنس گئی ، دل کے کو رے کا غذ پر نو ٹ کر لیجیے جیسے ہی تحریک انصاف اقتدار سے الگ ہو تی ہے حکمراں جماعت کا حال بھی پتلا ہو گا ، کاش وطن عزیز کی سیاسی جماعتیں اپنے نظریاتی کارکنو ں کو ان کا جائز مقام ومر تبہ دیں ، سیاسی جماعتوں کی مقبولیت اور جمہو ریت کا حسن انہی اصلی نسلی اور مخلص کارکنوں کے دم خم سے ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :