” الجھا وا “

ہفتہ 7 اگست 2021

Ahmed Khan

احمد خان

بنیادی ضرویات زندگی کی فراہمی ہر ریاست کی اولیں ذمہ داری ہوا کر تی ہے ریاست کے تخت نشیں اپنی رعایا کی آسانی کے لیے اپنا خون دل جلا یا کرتے ہیں وطن عزیز کے قیام کے بعد تخت حکمرانی پر فائز ہونے کے آرزومندوں نے بھی مہذب معاشروں کی دیکھا دیکھی اقتدار کے حصول کے لیے اسی نعرے کو اپنایا ، ایوب دور میں خلق خدا کی زندگیوں کو آساں بنا نے کے جو دعوے کیے گئے بڑے بوڑھے اکثر و پیشتر اس کا تذکرہ کر تے رہے ہیں ، بھٹو مر حوم نے بڑے سلیقے سے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ مستانہ بلند کیا بلکہ اس نعرے کو پارٹی منشور تک بنا یا ، بھٹو مر حوم کس حد تک اپنے اس نعرے کو عملی جامہ پہنا سکے ، سیاست کے نقاد اس پر قدرے بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں بھٹو مر حوم کے بعد ضیاء آئے انہوں نے بھی رعایا کی اس ” ضرورت “ کو اقتدار کے طوالت کا زینہ بنایا 88ء کے بعد تو گویا روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو بدل بدل کر جمہو ریت کے سرخیل اقتدار کے حصول کی دوڑ میں جھتے رہے ، نواز شریف اور ان کے ہم نوا جب حزب اختلاف میں ہوا کرتے ایک جانب پی پی پی اور پی پی پی کے ہم رکاب سیاسی جماعتوں کا دھڑ ن تختہ کر نے میں لگے رہتے دوم عوام کو دودھ کی نہریں بہا نے کے سہانے سپنے دکھاتے ، جب ” مقدر کی یاوری “ سے ن لیگ اقتدار پر قابض ہو جاتی پھر پی پی پی کے مہرباں نوازشریف اور ان کے ہم نواؤں کو اقتدا ر سے چلتا کر نے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا تے ، اس سیاسی ملا کھڑ ے کا نتیجہ کیا نکلا ، دونوں جماعتوں کی قیادت اور ان سے جڑے احباب کے دن تو خوب پھر ے ، عوام مگر بنیادی ضرویات کے لیے ترستے بلکہ سسکتے ہی رہے ، دونوں سیاسی جماعتوں کی کبھی میں کبھی تم کا سفر اسی طرح شاید جا ری رہتا مگر درمیاں میں مشرف کی دبنگ آمد نے کچھ سالوں کے لیے رکاوٹ ڈال دی ، 2007ء کے بعد خیر سے سیاسی پر دھا نوں کی پھر سے چاندی ہوچکی ، پی پی پی اور ن لیگ کے پر دھا ن مر کز میں ایک ایک باری لے چکے ، باریوں کے اسی کھیل میں تحریک انصاف نے بھی حصہ بقدر جثہ میداں سجایا ، تحریک انصاف کے سربراہ چونکہ ڈھنگ سے بے تکان بولنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے دوم شاید انہیں کسی سیاسی دوست نے ذہن نشیں کروایا کہ کی اقتدار کا ” چسکا “گر لینا ہے پھر گرانی بے روزگاری اور لا قانونیت جیسے عوام کے سالوں سے رستے زخموں پر مر ہم رکھنے کو ” ہو ا “ دیں بس اریب قریب دس سال قبل تحریک انصاف کے سربراہ نے عوام کے وہ مسائل جن کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن بن چکی تھی انہیں اٹھتے بیٹھتے اپنا موضوع بنا یا ، تحریک انصاف کی اٹھا ن اور پروان میں عمران خان کی بھٹو طرز سیاست نے گویا اہم تر کردار ادا کیا ، تحریک انصاف کے سربراہ اور موجوہ وزیر اعظم عمران خان کے عوامی حقوق کے باب میں دعوؤں اور وعدوں نے عوام کے دلوں میں پھر سے امید کے دیے روشن کر دئیے ، سال ہاسال سے مسلم لیگ ن اور پی پی پی سے جڑے کا رکنوں نے اپنی سیاسی محبت تحریک انصاف پر نچھاور کردی ، 18ء کے عام انتخابات میں عمران خان عوامی حقوق کا استعار ہ بن کر سامنے آئے سج دھج سے اقتدار میں آنے کے بعد مگر تحریک انصاف کے سربراہ اور ان کے حکومتی ہم نوا بھی ” سابقین “ کی راہ پرچل دئیے ، عوام کے مسائل کے بھاری پتھر کو ہاتھ لگا نے سے گریز کی راہ اختیار کی گئی ، سابق حکومتوں کی طرح عوام کی راج دلا ری حکومت بھی عوام کے بنیادی اور اہم ترین مسائل سے صرف نظر کر کے کھیل تماشے طرز کی پالیسیوں اور فیصلوں کو لے کر عوام کے دلوں پر مونگ دل رہی ہے ، کبھی مر غیوں تو کبھی بکریوں کے ذریعے عوام کی معاشی تنگی دور کر نے کے دعوے سر بازار کیے جاتے ہیں ، گرانی عوام کا اہم درد سر ہے لیکن گرانی کے جن کو قابو کر نے کے دعوے محض دعوے ہی ثابت ہو ئے وزیر اعظم سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر تک کوئی بھی گرانی کے آگے بند باندھنے میں کا مران نہ ہو سکا ، تین سال کے اقتدار میں بے روز گاری کو لگام ڈالنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حکومت وقت کے اعلی دماغ کچھ کر گزرنے سے کامل طور پر قاصر رہے ، سرکار کے کمان داری میں بہت سے محکموں اور شعبوں میں سالوں سے ہزاروں کی تعداد میں آسامیاں خالی ہیں بہت سے محکمے اب اس حد تک بد حالی کا شکار ہیں کہ افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے روز مرہ کے امور نمٹانے میں سرکار کے اداروں کو سخت پر یشانی کا سامنا ہے مگر عوام کے غم میں گھلنے والی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو احساس تک نہیں اگر حکومت وقت صحیح معنوں میں صرف سرکار کے زیر نگیں محکموں اور شعبوں میں روز گار کا در وا کر دے یقین واثق ہے کہ نہ صرف بہت سے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا بھلا ہو جائے گا بلکہ بہت سے گھرانوں کی دال روٹی کا ساماں بھی ہو جا ئے گا لیکن حکومت کے اعلی دماغوں کو کون سمجھا ئے کہ ریاست کی ترقی ریاست میں بسنے والوں کی ترقی سے جڑی ہے ریاست اس وقت خوش حال ہو گی جب ریاست میں بسنے والی رعایا کے دن پھریں گے ، اقتدار کے طلب گاروں کو مگر عوام سے زیادہ اپنے مفادات اور اپنی ناک عزیز ہے ، ریاست کے ذمہ داروں نے حضرت قائد اعظم کے بعد قوم کو سلجھن کی جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے کئی عشرے گزر جا نے کے بعد بھی عوامی مفاد نامی ” الجھن “ ہنوز سلجھ نہ سکی البتہ عوام کے بنیادی ضروریات کو اپنے مفادات کا ” دیباچہ “ بنا کر سیاست داں اور ہر سیاسی جماعت نے عوام کا خوب استحصال کیا ، المیہ کیا ہے ، عوام کا خون نچھوڑ نے کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ جاری و ساری ہے ، بار ہا اقتدار میں رہنے والے سیاست داں جب بیان داغتے ہیں کہ اقتدار میں آکر عوام کے مسائل حل کر نا ہماری اولین تر جیح ہے یہ سن کر سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے ہونٹوں پر بے ساختہ تلخ سی مسکراہٹ مچل جاتی ہے ، سوال مگر یہ ہے آخر کب تلک عوام ” قلیل فیصد “ کے ہاتھوں اسی طرح ماموں بنتی رہے گی ، طبقہ اشرافیہ کو تو عوام کا خیال نہیں اب عوام کو اپنے بھلے کے بارے میں از خود کچھ کر نا ہو گا بصورت دیگر آنے والے ماہ و سال میں بھی صرف وزیروں کے دن ہی پھر یں گے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :