”تذکرہ اہل وفا“

جمعرات 12 اگست 2021

Ahmed Khan

احمد خان

نو ے کی دہا ئی کی وہ آخری خوش نصیب نسل تھی جسے رسمی تعلیم میں اعلی پا ئے معلمین کی شفقت حاصل رہی اس نسل کو وہ مثالی معلمین ملے جو اب چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے اس نسل کو اعلی پائے کے معلمین کے ساتھ دوسرے شعبوں میں بھی ایسے پر خلوص مہر بانوں سے سیکھنے کا شرف حاصل رہا جو بلا کم و کاست نادر روزگار تھے ، معلمین وہ جو اپنے طلبہ کی کامرانی کے لیے اپنا سر ایسے کھپاتے جس کی نظیر ملنی مشکل ہے نوجوان نسل کی تر بیت کے لیے شعبہ صحافت سے وابستہ شخصیات بھی نوجوان نسل کی ذہنی اور اخلاقی آب یاری کے لیے الگ سے کو شاں تھی ، آواز خزانے سے ایسے ایسے جو ہر نایاب وابستہ تھے جو نوجوان نسل کی معاشرتی اقدارکے مطابق کردار سازی کے لیے درخشاں خدمات سر انجام دے رہے تھے نو ے کی دہا ئی میں نو جوانوں کی تفریح کا بہترین ذریعہ ریڈ یو تھا ریڈ یو سے وابستہ قدر دانوں نے آواز کی لہروں کے ذریعے نو جوانوں کو وہ کچھ دیا جو شاید نوجوان نسل کو کہیں سے نہ ملتا ، معلومات تفریح اور تعلیم دینے کے باب میں ریڈ یوگو یا پیش پیش رہا ، ریڈ یو اسلام آباد سے وابستہ ظفر خاں نیازی گویا نوجوان نسل کے ” مر شد “ تھے ظفر خاں نیازی کے ہم عصر اختر مرزا ممتاز میلسی نباہت شریں راحیلہ تسنیم غلام حسین چوہان غرض ریڈ یو اسلام آباد تفریح اور نوجوان نسل کی تربیت کا محور و مرکز تھا کچھ ایسا ہی قصہ راولپنڈی کا تھا ریڈ یو راولپنڈی کا پروگرام جھا نجھر اور پھر شہناز خان کی لوچ دار آواز نے گویا جھا نجھر کو چار چاند لگا رکھے تھے ، ریڈ یوپشاور کے پروگرام الگ سے نئی نسل میں مقبول تھے ظفر اللہ ظفر عمر ناصر عنایت اللہ زبید ہ عصمت ، شکیل ارشد ارشاد سواتی روبینہ صدیقی رخشند ہ افزاء نئی نسل کی کردار سازی میں اپنااپنا حصہ خوب ڈالتے رہے ، لا ہور سے یاسمین طاہر اور مدثر شریف کا ایک اپنا دل نشیں انداز تھا ریڈیو ملتان سے ریاض میلسی اور عذرا صدیق کو نوے کی دہائی کی نسل بھلا کیسے بھول سکتی ہے ، ریڈ یو کراچی میں محمد نقی اور عظیم سرور کا طو طی بولا کر تا تھا ، طباعتی صحافت اپنی جگہ نئی نسل کی درست سمت میں رہنما ئی کا فریضہ سر انجام دے رہی تھی ، کالم نویسی کے باب میں ارشاد حقانی مرحوم ، عباس اطہر مر حوم مکرم ہارون الرشید عبدالقادر حسن مر حوم حسن نثار علی سفیان آفاقی مر حوم ہمارے اسلاف میں شمار ہو تے تھے ، اسی زمانے میں حامد میر کا ” تیکھا پن “ اور مظہر بر لاس کا ” میٹھا پن “ نوجوان نسل کو صحافت میں آنے کاحوصلہ دے رہے تھے ، نو ے کی دہا ئی میں مد یر بطور ادارہ قائم تھا ، اسلام آباد سے طارق وارثی ایک بڑے اخبار سے جڑے ایک بڑے مدیر کی شہرت کما چکے تھے ، شہر اقتدار سے ہر ہفتہ سیاسی تجزیہ بھی لکھتے جس کا قارئین کو شد ت سے انتظار رہتا ، اسی لڑ ی کے آخر سر خیلو ں میں مکر م فاروق فیصل خان مکر م عابد عبداللہ مکر م ایاز خاں اور مکرم ارشاد عارف شمار ہو تے ہیں ، نو جوان نسل کی شخصیت سازی پر گلی محلے کے بڑے بوڑھے الگ سے ” شیر کی نظر “ رکھا کر تے گویا نو ے کی دہا ئی میں پروان چڑھنے والی نسل کی تربیت میں معاشرے کے تمام ستون اپنا اپنا حصہ پو رے خلوص سے ڈالتے رہے ، اہم سوال کیا ہے ، کیا آج سے قریباً تین دہائی قبل تدریس سے جڑے معلمین آج کے معلمین سے زیادہ ڈگریاں رکھتے تھے ، کیا آج سے تین دہا ئی قبل ریڈ یو اور ٹی وی سے وابستہ احباب اپنے فر ض سے لگن ماں کی پیٹ سے سیکھ کر آئے تھے ، دراصل یہ بڑے لوگ تھے انہیں اپنے شعبے کی عز ت اور عصمت عزیز تھی جو پیشہ معلمی سے وابستہ ہوا بس پھر اس نے اپنے پیشے پر بد نما داغ لگنے نہیں دیا، اپنے شعبے کا نام روشن کر نے کے لیے اس نے خون دل جلا یا اور اپنے شعبے کی قدر ومنزلت میں اضافہ کیا ، یہی حال صحافت کا تھا ، ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ ہو نے والوں نے اپنی ذمہ دار یاں ادا کر نے میں وہ کمال دکھلا یا کہ جن کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں ، کچھ ایسی ہی صورت احوال طباعتی صحافت کی تھی ، اخبارات اور رسائل سے کیسی کیسی ہستیاں جڑی تھیں ، طباعتی صحافت میں بے شمار اسم گرامی ایسے ہیں جنہوں نے گھاٹے کا سودا منظور کیا مگر قلم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی ، آخر ہمارے معاشرے کو دیمک کہاں سے لگی ، سب سے پہلے والدین بچوں کی تربیت کے فرض عین سے غافل ہو تے چلے گئے ، دوم شعبہ تدریس سے عشق عین والے گاہے گاہے رخصت ہو تے چلے گے اور بعد میں آنے والے اپنے اسلاف کے معیار اور وقار کو اپنا نے کے وصف سے عاری ہوتے چلے گئے ، سرکار کے کمان داری میں چلنے والے ابلا غ کے دونوں اہم وسیلو ں یعنی ریڈیواور ٹی وی کا حال بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ پتلا ہوتا چلا گیا ، طباعتی صحافت میں جان بوجھ کر مدیر کے عہدے کو کمزور کر دیا گیا ، جس دن طباعتی صحافت میں پیشہ وارانہ مدیر کی جگہ مالک نے سنبھال لی دراصل وہ طباعتی صحافت کی تباہ حالی کا پہلا دن تھا ، جب نئی نسل کی تربیت کے اہم ستون کاروبار کا درجہ پا جا ئیں پھر نئی نسل سے گلہ کیسا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :