”آنے والا کل“

ہفتہ 21 اگست 2021

Ahmed Khan

احمد خان

حالات خوب پلٹا کھا یایعنی تورابورا بنا دینے کی دھمکیاں دینے والے خود تورا بورا بن چکے ، انکل سام نے دھا ڑتے ہو ئے افغانستان پر شب خون مارا مگر بیس سال بعد دم دبا کر افغانستان سے بھا گ کھڑا ہوا شر مندگی ہزیمت الگ سے سمیٹی اور اپنوں کے طعنے الگ سے امریکہ بہادر کا پیچھا کر رہے ہیں اقوام عالم میں ہرسو حیرانی کا راج ہے امریکہ نوازوں سے عالمی چوہدری کی شکست ہضم نہیں ہو رہی بلکہ برداشت سے بھی باہر ہے ، دیکھتی آ نکھیں مگر طالبان کی فتح اور عالمی بھیڑ یے کی شکست فاش ملاحظہ کر رہی ہیں ، افغانستان کی خود ساختہ سر پر ست اعلی بننے والا آج بر ملا کہہ رہا ہے کہ افغانستان کو مطیع کر نا امریکہ کے بس کا روگ نہیں امریکی ” گور باچوف “ اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہیں تنقید کی زد میں ہو نے کے باوجود مگر امریکہ کا” گورباچوف“ سچ سے پر دہ سرکانے میں بتدریج مصروف ہے بائیڈن ہر روز جس طرح سے افغانستان میں اپنی شکست کا اعتراف در اعتراف کر رہا ہے اس میں طاقت کروفر اور اکڑ کے زعم میں مبتلا بہت سو ں کے لیے عبرت کا درس بھی ہے اور سبق بھی ، امریکہ کی چالوں سے بخوبی آگا ہ کچھ حلقے اس نئی ابھر تی صورت حال کو نئی امریکی چال سے تعبیر کر رہے ہیں ، ان حلقوں کا خیال زریں ہے کہ نام نہاد ”صاحب بہادر “ کی ظاہر ی شکست کے پیچھے دراصل کچھ اور کہانی چھپی ہے گویا اس خطے کے لیے انکل سام اور اس کے ہم نوا قوتوں نے جو جال بچھا یا تھا شاید اس خطے کو بچھاڑنے کے لیے یہ ایک نئی چال ہو سکتی ہے کچھ سنجیدہ حلقوں کا طالبان کی سر عت سے بغیر کسی خون خرابے کی فتح پر خد شات ہیں ، امریکہ کی حیران کن پسپا ئی اور طالبان کی کابل پر تیز تر چڑ ھا ئی کو کچھ اور معنوں میں لے رہے ہیں اس سوچ کے حامل حلقوں کے خیال میں شاید طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ بطور ہم سایہ اس طرح سے روابط استوار کر نے سے گریز کر ے جس طرح کے برادرانہ تعلقات کے متمنی بالخصوص پاکستانی عوام ہیں ، ان احباب کی خدمت اقدس میں عرض ہے کہ لگے بیس سالوں میں کر زئی اور اشرف غنی حکومت اور ان کے عہدے دار کامل طور پر پاکستان کے خلاف تھے نہ صرف اشرف غنی بلکہ فغانی حکومتی عہدے دار پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ میں کھلو نا بنے ہو ئے تھے لگے بیس سالوں میں افغانستان حکومت کی سہولت کاری کی وجہ سے پاکستان دہشت گردوں کا ہد ف تھا انہی دہشت گرد عناصر کے ہاتھوں پاکستان کے معصوم شہری جانوں سے گئے سلا لہ جیسا سانحہ آج تک پاکستانی قوم نہیں بھولی امید واثق ہے کہ کم از کم طالبان عہد میں اس حد تک سنگین صورت حال کا سامنا نہیں کر نا پڑ ے گا ، ہاں البتہ ابتدا ئے عشق میں طالبان حکومت سے حدسے زیادہ توقعات وابستہ کر نا خود کو خوب صورت دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں ، طالبان حکومت سازی میں کس طر ح کے لوگ شامل کر تے ہیں داخلی اور خارجی سطح پر طالبان کیا حکمت عملی اختیار کر تے ہیں ہم سایہ ممالک سے طالبان حکومت کس نو عیت کے تعلقات کی پالیسی قائم کر نے کی جستجو کر تے ہیں ہنوز ابھی بہت کچھ پر دے کے پیچھے ہے ،پاکستان کی حکومت اور عوام کو کسی خود فریبی کا شکار ہو نے کے بجا ئے آنے والے کل کا انتظار بھی کر نا چا ہیے اور آ نے والے کل پر کڑی نظر بھی رکھنی چاہیے کہ آنے والا کل پاکستان کے لیے کیا لا تا ہے ، اہم نکتہ یہ کہ پاکستان کے حکمرانوں کو افغانستان کے حالیہ معاملے میں سختی سے ایک نکتے پر عمل پیرا ہو نا چاہیے وہ یہ کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں خود کو ہر صورت غیر جانب دار رکھے اور افغانستان کی جانب سے دخل اندازی کی راہ بھی روکے ، افغانستان کی لمحہ بہ لمحہ بد لتی صورت حال میں پاکستان کی خارجہ سطح پر دلیرانہ طر زعمل کی تحسین نہ کر نا زیادتی ہو گی وزیر اعظم سے لے کر وزراء تک کے طعنے اور کوسنے مدتوں اشرف غنی اور امریکہ انتظامیہ کو یاد رہیں گے ، سابق حکمرانوں سے کم از کم ایسے برابری کے طرز عمل کی توقع نہیں باندھی جاسکتی تھی بہر طور جس تیزی سے افغانستان کی صورت حال میں تبدیلیاں وقوع پذ یر ہو رہی ہیں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں کیا منظر نامہ ہو گا ، طالبان حکومت قائم بھی ہو تی ہے یا نہیں حالیہ اشارے کنا ئے کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں ۔

(جاری ہے)


پس تحریر !امریکہ جہاز بھر بھر کر جن افغان شہر یوں کو بد یس لے کر جا رہا ہے کیا کل کلاں امریکہ اپنے ان کر ایے کے ” شاہینوں “ کو اس خطے میں بسنے والے ممالک کے خلاف استعمال نہیں کر ے گا ، طالبان کو چاہیے کہ ان بدیس کے آرزومند افغان شہر یوں کے تمام کوائف مر تب کر لے کہ کل کلاں نازک وقت میں بطور سند کا م آسکیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :