”تین میں نہ تیرہ میں‘‘

پیر 6 ستمبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

حزب اختلاف کی جانب سے ذرائع ابلاغ کی حد تک حکومت کے ساتھ دھینگا مشتی کے باوجود کپتان اپنی کرسی پر پوری آن بان شان سے براجمان ہیں چند ماہ قبل پی ڈی ایم کی چھتری تلے قائم حزب اختلاف کے اتحاد نے حکومت کے خلاف مشترکہ طور پر غوغا بلند کیا تھا اختلافی اتحاد کی دبنگ پروان اور پھر اٹھان نے سیاسی پنڈتوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا دوسری جانب حکومتی پالیسیوں سے نالاں طبقات نے بھی پی ڈی ایم کی شور و غوغا کو غنیمت جانا اگر سیاست سے تعلق خاطر رکھنے والوں کو یاد ہو تو گو جرنوالہ جلسے میں عوام کی شرکت اور ولولے نے بہت سے خدشات کو جنم دیا تھا حکومت کی جانے اور نہ جانے کی بحث سر عام ہو گئی تھی ،شو مئی قسمت کہ پی ڈی ایم سے جڑی طاقت ور سیاسی جماعتیں اپنا اتحاد بر قرار رکھنے میں ناکام رہیں اولاً تر جیحات کے نام پر سیاسی جماعتوں میں دال جوتوں میں بٹنے لگی اور پھر آپس کی رسہ کشی نے آخر کار پی ڈی ایم اتحاد کا عملاً بٹوا رہ کر دیا ، پی پی پی اور اے این پی پی ڈی ایم سے اعلا نیہ الگ ہوگئیں پی ڈی ایم میں دراڑ پڑ نے کے بعد کچھ عرصہ تک حزب اختلاف کی سیاست اچھی بھلی ” مد وجزر “ کا شکا ر ہو گئی تھی پی پی پی کے مو رچوں سے کبھی کبھار لفظی گولہ باری ہو تی رہی مگر پی پی پی کی لفظی گولہ باری ” مولوی مدن “ کے مزے سے محروم رہی ، لگے دنوں کراچی میں پھر سے حضرت مولانا اور شہباز شریف نے حکومت کے خلاف کراچی میں جلسہ پھڑ کا دیا ، جلسے میں شہباز شریف بولے اور خوب بولے ہم سب کے ہر دل عزیز حضرت مولانا نے بھی حکومت وقت کی خبر گیری میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑی ، چند دنوں سے ملکی سیاست کے پیالی میں پھر طوفان بر پا ہے ، حکومت اور حزب اختلاف کی ایک دوسرے پر زبانی چڑھائی میں تیزی آچکی ہے ، حکومت اور حزب اختلاف کی گر ما گر می سے عام آدمی کی بھلا ئی لیکن کہیں نظر نہیں آرہی ، حکومت کے دوست این آر او کی دم پکڑ ے حزب اختلاف کے ساتھ سیاسی ہاتھ کرتے نظر آرہے ہیں حزب اختلاف حکومت کی ناقص پالیسیوں کو ہد ف تنقید بنا نے کے بجا ئے شخصی مخالفت کا علم بلند کیے ہو ئے ہے ، مسلم لیگ ن کے قابل ذکر رہنما ؤں کی تان وزیر اعظم سے شروع اور وزیر اعظم کی ذات پر آکر ٹوٹتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی انفرادی تنقید کو لگے تین سالوں میں عوامی چوباروں میں وہ پذ یرائی نہ مل سکی جس کی توقع مسلم لیگ کے اکا برین اور سیاسی پنڈت کر رہے تھے ، پی پی پی اس حوالے سے باقی جماعتوں سے قدرے بھلے انداز میں چل رہی ہے ، پی پی پی کے اعلی دماغ حکومت کی عوام سے لگ نہ کھا نے والی پالیسیوں کا پوسٹ مارٹم کر تے نظر آتے ہیں ، پی پی پی کا المیہ مگر یہ ہے کہ پنجاب میں پی پی پی کی کو ئی توانا آواز موجود نہیں کم وپیش ایسا ہی حال کے پی کے میں ہے ، بہت سے احباب جانتے ہیں کہ اسلام آباد پر دباؤ ڈالنے کے لیے پنجاب اور پھر کے پی کے میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے توانا ہونا ضرور ی ہے حکومت کے لیے کو ئی سیاسی جماعت اس وقت ہی ” وخت“ ڈال سکتی ہے جب اس کی جڑیں پنجاب میں مو جود ہوں اگر مسلم لیگ ن پی پی پی اور باقی چھو ٹی سیاسی جماعتوں کا اتحاد بر قرار رہتا اس صورت حکومت کے لیے اچھی خاصی مشکل پیدا ہو سکتی تھی ، ہوا مگر کیا ، حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے نظر یات اور مفادات میں تفاوت نے تحریک انصاف کو حکومت کر نے میں آسا نیاں فراہم کر دی ہیں چند سیٹوں پر کھڑی حکومت حزب اختلاف کی جماعتوں میں ” لڑاؤ اور حکومت کر و“ والی صورت حال سے خوب فائدہ اٹھا رہی ہے اگر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں واقعتاًعوامی طر ز سیاست کی راہ چلتیں شاید آج انصافین حکومت بحران دربحران سے دوچار ہو چکی ہوتی ، کپتان کی خوش بختی ملا حظہ کیجیے کہ برس ہا برس سے سیاست میں سکہ جمانے والی سیاسی جماعتیں کپتان کا راستہ کھو ٹا کر نے میں نامراد رہیں ، عوام سے لگ کھا نے والے بے شمار ایسے حکومتی اقدامات اور پالیسیاں ہیں جن کو اگر حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں اپنی سیاست کی ” شہ سر خی “ بنا تیں آج کپتان اور اس کے ہم نوا ؤں کو حکومت کا دفاع کر نا کسی حد تک ناممکن ہوتا ، عوام کی غم میں گھلنے والی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی لیکن عوام کی ” دال روٹی “ کے غم سے آزد نظر آتی ہیں ، عوام کی صحیح معنوں میں ترجمانی نہ کر نے کی وجہ سے حکومت اور حزب اختلاف دونوں سے عوام نالاں ہیں ،سیدھے سبھا ؤ ساری رام کہانی کا نتیجہ نکل کر سامنے آتا ہے یہ کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کے کھا تے میں عوام تین میں نہ تیرہ میں ہے سیاست کے بازی گر وں کو صرف اپنا مفاد اپنا بچا ؤ عز یز ہے، کھرا سچ یہی ہے چاہے اچھا برا لگے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :