”تماشے پہ تماشا کیوں“

ہفتہ 11 ستمبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

پنجاب کے کوتوال اعلی اور منتظم اعلی دونوں پھر سے اپنی اپنی کر سیوں سے ادھر ادھر کر دئیے گئے تین سالہ اقتدار میں تحریک انصاف کے بڑوں نے سات بار آئی جی کو تبدیل کیا پانچ بار اس صوبے کے منتظم اعلی کو تبدیلی کی نذر کیا جاچکا لگے تین سالوں میں تین سو ستتر تقر ر و تبادلے کیے گئے کئی افسران ایسے ہیں جو گیار بار اور کئی نو بار آگے پیچھے کیے گئے ہر بار افسران کے اکھاڑ بچھاڑ کے جواب میں حکومت کے نقادوں کو بہتری مقصود ہے جیسے جوابات سے لاجواب کر نے کی سعی کی جاتی رہی ہے ، حسب روایت صوبے کے کوتوال اور منتظم اعلی کو تبدیل کر نے کے جواب میں یہی دلیل اور تاویل حکومت کے اکابرین اب کے بار بھی بیاں کر رہے ہیں ، حکومت کے ذمہ دار حلقوں سے سن گن لینے کے جواب میں احباب نے فر مایا کہ آئی جی پنجاب جرائم کی بیخ کنی میں ناکام رہے ان کے دور میں جرائم کی شرح تسلسل سے بڑھتی رہی بالخصوص خواتین کے ساتھ شرمناک واقعات میں اضافہ ہو ا، حکومت کی ناک کے بال گردانے جا نے والوں نے بتلا یا کہ ضلع کی سطح پر بھی پولیس افسران من مانیوں میں مصروف رہے بہت سے ڈی پی او اور ان کے ماتحتی میں فرائض نبھا نے والے افسران عوام کی فکر کر نے کے بجا ئے اپنی ” فکر “ میں غلطاں رہے من و عن حکومتی حلقوں کا جواب مان کر جب صوبے کے منتظم اعلی کی رخصتی کے باب میں دریافت کر نے کی جسارت کی جواباًفر مایا کہ چیف سیکر ٹری صاحب کئی معاملات میں صوبائی حکومت کی تر جیحات کو حقیقت کا روپ دینے میں نامراد ررہے، ا ن کے ماتحت افسران عوام کی خدمت میں چو بند نہ تھے جس کی وجہ سے عوام میں بد انتظامی اور افسران کی خود سری کے قصے عام تھے چند ایک افسران کے قصے بھی سند کے طور پر بیاں کیے گئے ، افسرشاہی سے جڑے حلقے مگر کچھ اور جواز پیش کر رہے ہیں ایک اعلی عہدے پر فائز صاحب کا فر مانا ہے کہ افسران کو حکومت کے وزراء اور حکومتی ایم این اے ایم پی اے آزادی سے کام کر نے نہیں دیتے ، پولیس پر حکومتی عہدے داروں کا اثر و رسوخ رکنے کا نام نہیں لے رہا اسی طرح انتظامی عہدوں پر تعینات افسران کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے ، حکومت کے اراکین اور پارٹی عہدے دار انتظامی افسران کے امور میں سفارش کی ” خلل“ ڈالتے ہیں اس وجہ سے انتظامی امور سنورنے کے بجا ئے بگڑ رہے ہیں ، انتظامی عہدے پر براجما ن ایک نیک نام افسر کا نکتہ تھا کہ پنجاب بھر میں اضلاع کی سطح پر حکومت نے من چاہے افسران کا تقرر کر رکھا ہے یہ افسران اپنے نگراں افسران کو کم ہی خاطرمیں لاتے ہیں جس کی وجہ سے انتظامی سطح پر عوام کے امور میں شفافیت نظر نہیں آرہی ، اوپر کے سطور میں عرض کر دہ نکات سے اختلاف کی جرات نہیں کی جاسکتی ، انتظامی امور میں سیاسی اثر ورسوخ کا چلن بھی عام سی بات ہے لیکن انتظامی افسران کی کاہلی سے بھی نظر پھیر ی نہیں جاسکتی اہم ترین انتظامی عہدوں پر براجمان افسران کے شب وروز ان کے دفاتر آنے جانے کے اوقات اور دفاتر میں فرائض انجام دہی میں بہت سے ” بد انتظامی “ کے عناصر نظر آتے ہیں ،لا کھوں کی مراعات لینے والے افسران کے دلوں میں عام آدمی کے لیے تڑپ کسی سطح پر نظر نہیں آتی ، زیادہ تر افسران بس اپنے عہدوں سے لطف لیتے نظر آتے ہیں خوش نصیبی سے اگر عام آدمی کی رسائی کسی افسر تک ممکن ہو جاتی ہے اسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جا تا ہے ،مسلم لیگ ن کے دور میں بھی یہی افسران کم وپیش انہی عہدوں پر متمکن تھے اب تحریک انصاف کے عہد زریں میں بھی وہی دیکھے بھا لے اور کردار کے لحاظ سے جانے پہچانے افسران مختلف عہدوں پر تشریف فرما ہیں ، آخر فرق کیا ہے ، فر ق دراصل یہ ہے کہ تحریک انصاف حکومت افسران کے تقرر کے وقت بھی دماغ نہیں کھپاتی اور ان کے تبادلوں کے وقت بھی دماغ سے کام نہیں لیتی ، شہباز شریف سخت گیر منتظم تھے اوپر سے لہجہ بھی آخری حد تک ترش سو افسران کو انتظامی امور میں زیادہ نہیں تو آٹے میں نمک کے برابر خیال رہتا تھا یو ں سمجھیں کہ افسر شاہی دامے درمے سخنے عوام کی خدمت کے لیے چار و ناچار کچھ نہ کچھ کر تی رہی ، مو جودہ وزیر اعلی پنجاب مزاجاً شہباز شریف سے یکسر مختلف ہیں اپنے ماتحتوں کو حکم دیتے ہو ئے بھی محسوس ہوتا ہے جیسے ” عرض “ کر رہے ہو ں دوم عثمان بزدار انتظامی امور کی ” الف ب “ اس عر ق ریزی سے نہیں سمجھتے جس طر ح سے شہباز شریف کو انتظامی امور کے تمام گر ازبر تھے، سیاست اور انتظام و انصرام پر عقابی نظر رکھنے والے بھلی طرح سے جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں عام طور پر ڈنڈے کے بل پر ماتحتوں کو ناک کی سیدھ میں کر نے کا وطیرہ زیاد ہ مو ثر سمجھا جاتا ہے جب کہ موجودہ وزیر اعلی مزاجاً جلا لی مزاج سے کوسوں دور ہیں دراصل یہی وجہ ہے جس کی بنا پر پنجاب میں تحریک انصاف حکومت افسر شاہی کو بار بار تبدیل کرنے کے باوجود من چاہے نتائج حاصل کر نے سے قاصر رہی ہے گویا اہم فر ق طرز حکمرانی کا ہے آج اگر بزدار اپنی رکھ رکھا ؤ اور مزاج میں سخت گیر پن شامل کر لیں اپنی لگی بندھی طریق کار کو ترک کر کے عوامی امنگوں کے مطابق معمولات اپنا لیں ، دیکھ لیجیے گا چند دنوں میں پنجاب کے افسران کی کارکردگی میں نمایاں فرق خاص و عام نظر آئے گا، جب تلک عثمان بزدار چال ڈھال تبدیل نہیں کر تے اس وقت تک افسران کے تقررو تبادلوں کا تما شہ اسی طر ح چلتا رہے گا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :