”طوطے“

منگل 21 ستمبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

عام انتخابات کے دنوں میں وطن عزیز کی سیاست کے پر دھا ن سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور امید وار عوام سے بڑے ہی دل نشیں وعدے کیا کر تے ہیں اقتدار میں آنے کے بعد مگر جمہو ر کے کندھوں کو سیڑھی کے طور پر استعمال کر نے والے حکمراں چند ہاتھوں میں کھلونا بن جا تے ہیں تخت نشیں ہو نے کے بعد حکمران گنتی کے ” چند“ مصاحبین کا کہا مانتے ہیں اور انہی کے محفل ہا ؤ ہو میں شاد رہتے ہیں ، مشرف قوم کو بہت کچھ دینے دلا نے کے وعدے کر کے اقتدار پر قابض ہو ئے تھے بعد میں وہی مشرف اپنے اسی ” چند “ کے قبیلے کے ہاتھوں کو چہ اقتدار سے رخصت ہو ئے ، مشرف کی رخصتی کے بعد پی پی پی کے سرخیل اقتدار میں آئے ، آصف زرداری کے گرد بھی وہی ” چند “ کا ٹولہ جمع ہوا اس ٹولے نے زرداری کے گرد بھی اپنا ہالہ بنا نے کی پوری پوری سعی کی لیکن پی پی پی کے ارباب اختیار کسی نہ کسی طور کئی معاملات میں اس چند کے ٹولے کو ” غچہ “ دے ہی جاتے ، عمومی طور پر پی پی پی کی اعلی قیادت اور رہبروں کے ذہنوں میں یہ نکتہ کہیں نہ کہیں محفوظ ہے کہ انہیں اقتدار عوام کے طفیل ہی مل سکتا ہے ، پی پی پی کے بعد مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی ، 99ء سے لے کر 2013ء تک میاں صاحبان عوام کے غم میں کس کس طرح سے گھلتے بلکہ تڑپتے سسکتے رہے کسی سی عیاں نہیں ، اقتدار میں آنے کے بعد بڑے میاں صاحب کے گرد بھی فوراًسے پیشتر ” چند “ کے ٹولے نے نہ صرف اپنی جگہ بنا ئی بلکہ بڑے میاں صاحب کو اس حد تک اپنا ” عادی “ بنا لیا کہ بڑے میاں صاحب کو صرف ” چند “ کی بات کے سوا کچھ سنا ئی نہیں دیتا تھا ، بڑے میاں صاحب کے دور میں کابینہ کے کتنے اجلاس ہو ئے بڑے میاں صاحب کا دفتر کتنا عوامی نما ئندوں کے لیے کھلا رہتا سیاست کے رموز اوقاف سے آگاہ احباب خوب جا نتے ہیں ،سچ پو چھیے تو جی حضوری بہت ضروری کے فن میں یکتا ” چند “ کے ٹولے نے بڑے میاں صاحب کو تنہا کر دیاتھا ، عوام تو رہے ایک طرف بڑے میاں صاحب منتخب عوامی نما ئندوں کی پہنچ سے بھی باہر ہو تے چلے گئے ، بہت سے عوام کے منتخب نما ئندے ایسے تھے جو اپنے حلقوں کے معاملات میں میاں صاحب سے ملا قات کے شدت سے آرزومند تھے لیکن ان کی آرزو بس آرزو ہی رہی ، میاں شہباز شریف کا معاملہ بڑے میاں صاحب سے قدرے مختلف تھا ، چھو ٹے میاں صاحب کی انتظامی طور پر ایک دھاک اور ساکھ تھی ، میاں صاحب صوبائی معاملات میں اچھے خاصے دل چسپی لیا کرتے تھے البتہ منتخب عوامی نما ئندوں سے میل جول اور ان کی بات سننے کے معاملے میں مگر چھو ٹے میاں صاحب کی ”کھٹور پن “ کی شہرت عام تھی ، میاں صاحب بھی اسمبلی کو وقت اور وقعت ذرا کم دیا کر تے تھے ، میاں شہباز شریف اپنی زباں سے نکلی بات کو حرف آخر سمجھا کرتے ، عوام کی زندگیوں پر اثر انداز ہو نے والی کئی الم غلم پالیسیوں کے باب میں عوامی نما ئندے اگر رابطہ کر نے کی سعی کرتے بھی تو نامرادی ان کا منہ چڑاتی ،قصے کو پھر بڑے میاں صاحب کی طرف موڑتے ہیں اگر بڑے میاں صاحب پانامہ کے قضیے میں مخلص دوستوں کا مشورہ مان کر وزارت عظمی سے رضا کارانہ طور پر رخصت ہو کر عام انتخابات میں جاتے ، اغلب گما ن یہی ہے کہ پانامہ کا قضیہ نہ عدالت عظمی جاتا نہ میاں صاحبان اور مسلم لیگ ن کو آج اتنے کھٹن حالات سے گزرنا پڑتا ، پانامہ کے معاملے میں بھی مگر بڑے میاں صاحب کو ” چند “ کے نادر مشورے لے ڈوبے ، یوں جی حضوری کے وصف میں تاک کر م فر ماؤں نے میاں صاحبان اور مسلم لیگ ن کو ان حالات میں دھکیل دیا جس کی توقع شاید مسلم لیگ ن کا عام کارکن بھی نہیں کر رہا تھا ، اس باب میں آئیے اب خان اعظم کا تذکرہ بھی کرتے چلیں ، وزیر اعظم ہا ؤس کا منظر نامہ ہو بہو میاں صاحب کے دوروالا ہے ، خان اعظم جیسے ہی تخت نشیں ہو ئے چند کے ٹولے نے انہیں بھی اپنی گرفت میں لے لیا ، حسب روایت چند کے ٹولے نے کپتان کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے ہنر دکھا نے شروع کر دئیے ، آج خان اعظم عوامی نما ئندوں سے زیادہ اسی ” چند “کے ٹولے پر اعتماد کرتا ہے انہی کا سنتا ہے اور انہی کا مانتا ہے ، عوامی نما ئندے بار بار آہ وفغاں کر رہے ہیں لیکن تحریک انصاف کے منتخب نما ئندوں کی دال گل نہیں رہی ہے ، یاد رکھیے جب تک وطن عزیز کے حکمرانوں کی جاں خلاصی طوطوں سے نہیں ہوتی ، اقتدار میں جس کو مر ضی لا ئیں عوام کا حقیقی معنوں میں بھلے کی امید محض دیوانے کا خواب ہی رہے گا، صائب امر یہ ہے کہ عوام کے مقدر کے فیصلوں میں مخصوص لوگوں کے بجا ئے اگر حکمران عوام کے نما ئندوں کو شامل کر یں حکمرانوں کے اس اقدام سے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہی سہی کچھ تو بہتری آسکے گی ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :