” گل پہ گل کھلانا “

پیر 22 نومبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

فوادچو ہدری بادشا ہ ہیں اقتدار کی پگ سر پر سجا نے کے بعد توگو یا مہا بادشاہ بن چکے ، جن دنوں تحریک انصاف سڑکوں پر تھی اس وقت فواد چو ہدری اپنی جماعت کے تر جمان کے طور پر ذرائع ابلا غ کے تو سط سے عین اسی طرح سے عوام کے سامنے آیا کر تے تھے ان دنو ں فواد چو ہدری نپے تلے الفاظ اور بر جستہ جملو ں کے ذریعے اپنی مد مقابل سیاسی جماعتوں کی ” چٹکی “ اس خوب صورتی سے لیا کر تے تھے کہ صرف صحافتی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ سیاسی اور عوامی اوطاقوں میں بھی فواد چو ہدری تحریک انصاف کے ” غازہ “ کے طور پر جا نے مانے لگے تھے بڑی خوب صورتی سے سیاسی مخالفین کو رگڑا لگا نا فواد چو ہدری کا فن سمجھا جا نے لگا تھا ذرائع ابلاغ کے دوست عام طور پر فواد چوہدری سے ہی تحریک انصاف کی سیاسی ہنر کاریوں کے بارے میں استسفار کر تے اور فواد چو ہدری چند جملوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا کرتے ، اقتدار کے حصول کے لیے سر گرداں تحریک انصاف کے لیے فواد چو ہدری اچھے بھلے ” من و سلوی “ کی حیثیت اختیار کر گئے تھے ، ان کی اسی ” ادا “ نے نہ صرف انہیں انصافین حلقوں بلکہ عوامی حلقوں میں بھی قدر و منزلت سے نوازا سو جب تحریک انصاف نے اقتدار کی سیڑھی پر قدم رکھا تو رائے عامہ سے جڑے حلقوں کا خیال تھا کہ وزیر اطلاعات کے قلم دان کے لیے اہل ترین فواد چو ہدری ہی ہو سکتے ہیں ہوا بھی یہی عمران خان نے فواد چو ہدری کو ہی حکومت کی ” نیک نامی “ کو ہوا دینے کے لیے اطلاعات کا مختار کل بنا یا ، اقتدار کے نشے نے شایدباقی صاحبان اقتدار کی طرح انہیں بھی اپنی گرفت میں لیا ، اطلاعات کا قلم داں سنبھالنے کے بعد ہو نا تو یہ چا ہیے تھا کہ ہمارے پیارے پہلے سے کہیں زیادہ سنبھل کر چلنے اور بولنے کی خو اپنا تے لیکن اس معاملے میں فواد چو ہد ری اپنے ربط اور بالخصوص اپنے ضبط پر قابو پانے پر نامراد رہے ، وزیر اطلاعات کا کام حکومت وقت کے اچھے بھلے کا موں کو اجاگر کر نا اور سیاسی مخالفین کے غباروں سے دلیل اور حکمت سے ہوا نکالنی ہوتی ہے ، فواد چو ہدری کپتان اور کپتان کے لیے آسانیاں پیدا کر نے کے بجا ئے اپنی حملہ آور پالیسی کے تحت نہ صرف اپنی حکومت کے لیے عوام میں نر م گو شہ پیدا کرنے سے قاصر رہے ہیں بلکہ بغیر تو لے بو لے بیانات سے خود بھی یک بعد دیگرے تنا زعات میں گھیرے رہے ہیں ، لگے دنوں میں الیکشن کمیشن کے بارے میں حد سے زیادہ بہت کچھ کہہ گئے سیاست کے داناؤں کے خیال میں الیکشن کمیشن کے بارے وزیر اطلاعات کے طور پر انہیں اس انداز میں کچھ نہیں کہنا چا ہیے ابھی الیکشن کمیشن سے جاری ” پنگا “ درمیاں میں ہے کہ وزیر اطلاعات نے انتہا پسندی کے باب میں سرکار کی سر پرستی میں چلنے والے درس گاہوں کے بار ے میں دھانسو قسم کا بیان داغ دیا ، دانا کہتے ہیں بولنے کے معاملے میں پہلے تولو پھر بولو کے اصول پر کار بند رہنا ذمہ داروں کا خاصا ہوا کرتا ہے ، سادے الفاظ میں یہ کہ کسی بھی معاملے کے بارے میں پوری تحقیق کے بعد زباں کو جنبش دینی چاہیے ، اصل معاملہ کیا ہے ، ہر دور کے حکمراں اپنے مخالفین کو صر یحا ً غلط ہو نے کا دوش دیا کرتے ہیں ، مان لیتے ہیں کہ کئی معاملات میں حکومتوں کے مد مقابل آنے والے غلط ہوں گے لیکن ہر دور کے حکمراں اقتدار کے نشے میں اتنے مست قلند ر بنے ہوتے ہیں کہ انہیں معاملات کی نزاکت کا ادراک اور احساس بر محل نہیں ہوتا حکومتوں کی اسی کو تاہ اندیشی کی وجہ سے وہ معاملات جو تدبر اور حکمت سے ابتداء میں بڑی آسانی سے حل ہو سکتے ہیں حکومتی سطح پر بروقت فیصلے کے فقدان کی وجہ سے نازک تر صورت اختیار کر لیتے ہیں ، حالیہ تین سالوں میں تحریک لبیک کے قصے سمیت کتنے ہی ایسے معاملات تھے جنہیں سیاسی ہنر کار ی سے با آسانی سے حل کیا جاسکتا تھا لیکن مختلف طبقہ فکر کے احتجاجی تحریکوں سمیت تحریک لبیک کے خونی احتجاج تک حکومت وقت پہلے طاقت کے بل پر شیر کی طرح گر جتی برستی رہی اور جب معاملات ہاتھ سے نکلے پھر حکومت کے انہی ” شیروں “ نے جاں خلاصی میں دیر نہیں لگا ئی ،ریاست کے معاملات کے بگاڑ میں دراصل حکومتوں کا اپنا کلیدی کردار ہوا کر تا ہے ، جو حکمراں عوام کے نباض بن کرحکومتی امور انجام دیتے ہیں انہیں عوامی سطح پر بہت کم ” نازک “ صور ت حال کا سامنا کر نا پڑ تا ہے اس کے بر عکس ایسے حکمراں جو حکومتی امور کے بارے میں درست فیصلوں کے وصف سے عاری ہوتے ہیں انہیں خود بھی ہر قدم پر پریشانی کا سامنا کر نا پڑ تا ہے اور ایسے حکمرانوں کے الم غلم اقدامات سے عوام کو بھی مصائب کا دریا پار کر نا پڑ تا ہے ، کچھ ایسا ہی قصہ اس وقت بھی چل سو چل ہے جس کی وجہ سے آئے روز کو ئی نہ کو ئی نیا کٹا کھل جا تا ہے جو حکمراں طبقے کے لیے بھی پریشانی کا سبب بنتا ہے اور عوام کو بھی اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :